ملک میں ایک مخصوص طبقہ کی جانب سے عرصہ دراز سے مختلف ادوار اور مواقع پر فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوششیں کی گئیں لیکن اہل تشیع اور اہل سنت علماء کی دانش مندی، وسعت نظری اور فہم و فراست کی بنا پر ہمیشہ ایسی تمام مذموم کوششوں کو مل جل کر ناکام بنا دیا گیا اور دونوں عقائد کے پیروکاروں نے ہمیشہ آپس کے اتحاد سے ثابت کیا کہ پاکستان میں صدیوں سے بسنے والے
شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں لیکن اس مخصوص طبقے یعنی لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ نے حالیہ عرصہ میں اپنی سرگرمیاں ایک بار پھر تیز کر دی ہیں، اہل تشیع علما کافی عرصہ سے مسلسل ایسے خدشات کا اظہار کرتے آ رہے تھے بلکہ اہل سنت تنظیموں سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک، جے یو پی اور منہاج القرآن کے رہنماوں نے بھی کئی مواقع پر حکومت کو ملک میں جاری دہشتگردی اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوششوں پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا لیکن اپنے اقتدار کو بچانے کی کوششوں میں مصروف حکمرانوں نے علماء کے ان خدشات اور تحفظات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے دہشتگرد ملک اسحاق کی رہائی کے بعد جنوبی پنجاب میں امن و امان کی فضا خراب ہونے کے درپے ہے جس کی مثال بھکر اور مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور گھلواں میں پیش آنے والے حالیہ واقعات ہیں، بھکر واقعہ کے بعد شیعہ علماء حکومت پنجاب سے مسلسل مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کہ وہ کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرے، صوبائی انتظامیہ کے اس امر کو لاپرواہی کہیں یا کوئی سیاسی ڈیل؟ لیکن اگر اس خطرناک کھیل کا سدباب نہ کیا گیا تو یہ بہت سے لوگوں لے ڈوب سکتا ہے۔
کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے دہشتگرد ملک اسحاق نے جنوبی پنجاب میں اپنے دوروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور وہ اپنے جلسوں میں اہل تشیع کیخلاف مسلح جدوجہد کا اعلان بھی کر چکا ہے، اس سلسلہ میں اتوار کے روز وہ ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور گھلواں آیا، اس موقع پر کالعدم تنظیم نے ایک جلسہ کا بھی اہتمام کیا تھا، شیعہ تنظیموں کی جانب سے کئی بار انتظامیہ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کے باجود بھکر کی طرح یہاں بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا او ر پولیس نے یہ کہہ کر اپنی بےبسی ظاہر کر دی کہ ہم اس کو نہیں روک سکتے، ملت تشیع کی بڑی تعداد نے پولیس کے اس رویے کیخلاف علی پور میں دھرنا دیا اسی دوران ملک اسحاق کے استقبال کیلئے جانیوالے سینکڑوں مسلح شرپسندوں نے شیعہ مخالف نعرہ بازی اور پرامن ملت تشیع کے افراد پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں 4 شیعہ افراد زخمی ہو گئے، شیعہ جوانوں نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے دہشتگردوں سے اسلحہ چھین کر دفاعی فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم کے 2 دہشتگرد موقع پر ہلاک جبکہ 4 زخمی ہو گئے، اسی روز ملک اسحاق نے علی پور کے علاوہ جتوئی اور ڈیرہ دین پناہ میں مختلف اجتماع میں شرکت کیلئے جانا تھا لیکن انتظامیہ نے تھوڑی بہت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے روک لیا۔
ملت تشیع کے نوجوانوں کی جوابی فائرنگ پر کالعدم تنظیم کے مسلح دہشتگرد اسلحہ، موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے، ملت تشیع کے افراد نے چھینی گئی چار کلاشنکوفیں اور دیگر چھوڑا گیا اسلحہ انتظامیہ کو پیش کر دیا، کالعدم تنظیم کی اس شرانگیزی کے بعد شہر میں حالات کشیدہ ہو گئے اور انتظامیہ نے شہر کو سیل کر دیا، شرپسندوں نے شہر میں مسلح گشت شروع کر دیا اور سول ہسپتال کو اپنے قبضہ میں لے لیا، جس کے باعث زخمی شیعہ نوجوانوں کا پرائیوٹ ہسپتال میں علاج کرایا گیا اور کسی اور ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کیلئے انہیں رات کو ہسپتال سے منتقل کر دیا گیا، علی پور گھلواں میں رات گئے تک فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا، شہر میں بازار اور دکانیں بھی بند تھیں اور ہو کا عالم تھا جبکہ کالعدم تنظیم کے دہشتگردوں کی جانب سے بعض مقامات پر باقاعدہ مورچے بھی بنا لئے گئے تھے، اس ساری صورتحال میں انتظامیہ نے کالعدم تنظیم کی شرانگیزی پر کوئی ایکشن نہیں لیا، انتظامیہ کی جانب سے حالات کو معمول پر لانے کیلئے کوئی بھی اقدام نہ اٹھانے پر ملت تشیع کے افراد نے ازخود قیام امن کی کوشش کی اور دو مسلح دہشتگردوں کو پکڑ کر اسلحہ سمیت پولیس کے حوالے کر دیا۔
اہل تشیع تنظیموں کی جانب سے کالعدم تنظیم کی شرانگیزی کی پرزور مذمت کی گئی اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جنوبی پنجاب میں دہشتگرد تنظیموں کو کنٹرول کرے، اسلام ٹائمز کیساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بدنام زمانہ دہشتگرد ملک اسحاق نے بدامنی اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے جنوبی پنجاب کے دورے شروع کر دیئے ہیں اور اس کی مثال علی پور کا واقعہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کہیں بھی شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں لیکن حکومت پنجاب کی آشیرباد پر کالعدم تنظیمیں شرانگیزی پھیلانے میں مصروف ہیں، ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ان شرپسندوں کیخلاف کاروائی کرے، واقعہ کے اگلے روز تحصیل علی پور گھلواں کی انتظامیہ نے شرانگیزی پھلانے والی کالعدم تنظیم کے کارکنوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے الٹا شرپسندی کا شکار ہونے والے ملت تشیع کے افراد کیخلاف مقدمات کا اندراج شروع کر دیا، پولیس کے
ا س اقدام پر ملت تشیع کے افراد اب بھی تشویش میں مبتلا ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ فوری طور پر غیر جانبدرانہ کاروائی کرے لیکن آخری اطلاعات آنے تک مقامی انتظامیہ کی جانب سے حقیقی انصاف پر مبنی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
علی پور گھلواں کے اس حالیہ واقعہ سے جہاں ملت تشیع کے خدشات درست ثابت ہونا شروع ہو گئے ہیں وہیں جنوبی پنجاب کے عوام میں بھی عدم تحفظ بڑھ رہا ہے، اگر حکومت نے ان سرگرمیوں پر قابو نہ پایا تو یہ ملک و قوم کے علاوہ خود حکومت کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، دوسری جانب غیر مصدقہ ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کو متنبہ کیا ہے کہ لشکرجھنگوی کے رہنما ملک اسحاق کی سرگرمیوں کی وجہ سے پنجاب میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیل سکتی ہے اور یہ شخص صوبے میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ بن سکتا ہے لہذا حکومت اس کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرے لیکن خفیہ اداروں کی اس رپورٹ کی ابھی تصدیق نہیں کی جا سکتی، اس ساری صورتحال میں صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملکی اور قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں نبھائے اور اگر کسی سیاسی ڈیل کے تحت کوئی مجبوری ہے تو اسے ختم کیا جائے کیونکہ اگر میاں نواز شریف مسلم لیگ ن کو قومی جماعت کہتے ہیں تو اس جماعت کو قومی مفاد میں اقدامات کرنا ہونگے، مرکزی حکومت بھی فرقہ واریت کو ہوا دینے والی تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری جن کو اسی قوم نے قربانیاں دیکر بحال کرایا انہیں اس معاملہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ کالعدم تنظیموں کے شرپسند اور دہشتگرد رہا کر دئیے جاتے ہیں۔