پارہ چنار:شیعہ مسلک کے ہزاروں محصور لوگوں سے سکیورٹی فورسز کے اہلکار معاوضہ وصول کرتے ہیں
پاکستان کے قبائلی علاقے کُرم ایجنسی میں شیعہ مسلک کے ہزاروں محصور لوگوں کے لیے چاروں طرف سے ہر قسم کے راستے بند ہیں اس لیے قافلوں میں ان کو اپنے گھروں تک پہنچانے پرسکیورٹی فورسز کے اہلکار معاوضہ وصول کرتے ہیں۔
سات قبائلی ایجنسیوں میں کُرم ایجنسی ایک ایسا قبائلی علاقہ ہے جہاں طالبان شدت پسندوں کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادت بھی ہورہے ہیں جس کی وجہ سے اس ایجنسی کو سب سے زیادہ حساس قرار دیاگیا ہے۔
کُرم ایجنسی میں شیعہ مسلک کی زیادہ تر آبادی صدر مقام پاڑہ چنار میں ہے اور پاڑہ چنار کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ پاڑہ چنار کو پاکستان کے دوسرے علاقوں سے ملنے والے تمام راستے گزشتہ چار سالوں سے بند پڑے ہیں۔
تاہم گزشتہ ایک عرصے سے سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں قافلوں کے ذریعے ان محصور لوگوں کو اپنے گھروں تک پہنچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ پاڑہ چنار کے
شہریوں کے مطابق ان قافلوں میں جانے والے لوگوں سے سکیورٹی فورسز کے اہلکار ٹل سے پاڑہ چنار تک ایک ہزار روپے اور علی زئی سے پاڑہ چنار تک پانچ روپے فی کس کرایہ لیتے ہیں۔
پاڑہ چنار شلوزان کے رہائشی ثاقب بنگش نے شیعت نیوز کو بتایا کہ پہلے لوگ ضلع ہنگو کے علاقے ٹل سے لوگوں کو قافلوں کے ذریعے پاڑہ چنار تک پہنچاتے تھے جس میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار ایک شخص سے ایک ہزار کرایہ لیتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا ’اب لوگ علی زئی تک اپنی گاڑیوں میں چلے جاتے ہیں پھر وہاں سے سکیورٹی فورسز کے گاڑیوں میں ٹل تک جاتے ہیں
مُسافروں کے لیے گاڑیوں کا بھی کچھ خاص انتظام نہیں ہے اور آرمی کی بڑی گاڑیوں میں ساٹھ ستر کے لگ بھگ لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح گھسا دیتے ہیں جس میں بچے اور خواتین بھی شامل ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا ’اب علی زئی سے ٹل تک کرایہ کم ہوکر پانچ سو روپے کردیا ہے۔‘
ثاقب بنگش کا کہنا تھا کہ پہلے ٹل سے پاڑہ چنار تک کا راستہ اٹھاسی کلومیٹر تھا اور اب علی زئی سے ٹل تک کا راستہ اٹھائیس کلومیٹر ہوگیا ہے۔ انہوں نے بتایا ’مُسافروں کے لیے گاڑیوں کا بھی کچھ خاص انتظام نہیں ہے اور آرمی کی بڑی گاڑیوں میں ساٹھ ستر کے لگ بھگ لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح گھسا دیتے ہیں جس میں بچے اور خواتین بھی شامل ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز سفر کے لیے باقاعدہ ٹکٹ دیتے ہیں اور علی زئی سے ٹل تک کا سفر حکومت کے لیے ایک اچھا خاصہ کاروبار بن گیا ہے۔ ان کا الزام تھا کہ یہ پیسے وہاں کے حکام
آپس میں بانٹ دیتے ہیں جو ان کے تنخواہوں سے تین گُنا زیادہ ہیں۔
سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی گاڑی ہے اور نہ ہی ان کرایہ وصول کرنے کا کوئی منصوبہ ہے تاہم ان کا کام صرف قافلے کو سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ترجمان برائے سکیورٹی فورسز
پاڑہ چنار کے رہائشی سجاد حُسین نے بتایا کہ ٹل سے پاڑہ چنار تک سکیورٹی فورسز کے اہلکار ایک ہزار روپے لیتے ہیں جبکہ دوسری طرف جب سڑک کھلی تو اس وقت ہائی لیکس آرام دہ گاڑیوں میں پاڑہ چنار سے ٹل تک کا کرایہ صرف ایک سو اسی روپے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک طرف مُسافروں کو آرمی کے بڑی گاڑیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ڈال دیتے ہیں اور دوسری طرف طالبان کی طرح سرکاری اہلکار نے بھی بھتہ لینا شروع کیا ہے۔ سجاد حُسین کے مطابق یہ کرایہ نہیں بلکہ بھتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوئر کُرم اور وسطی کُرم میں طالبان بھتہ لیتے ہیں اور یہاں اپر کُرم میں اہلکاروں نے بھتہ لینا شروع کیا ہے۔ ہم تو حیران ہیں کہ کس کا بھتہ قبول کریں؟ طالبان کا یا سرکاری اہلکاروں کا!
ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ تصور ملتا ہے کہ حکومت ٹل پاڑہ چنار روڈ کو کھولنا نہیں چاہتی ہے کیونکہ ہر قافلے سے حکومت کو لاکھوں روپے ملتے ہیں اور اس کے علاوہ چپاری چیک پوسٹ پر مال بردار گاڑیوں سے فی ٹرک ایک لاکھ روپے لیتے ہیں جو ان کے لیے اچھی خاصی آمدن ہے۔
اس حوالے سے سکیورٹی فورسز کے ترجمان نے بتایا کہ یہ ’سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی گاڑی ہے اور نہ ہی ان کا کرایہ وصول کرنے کا کوئی منصوبہ ہے تاہم ان کا کام صرف قافلے کو سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان تمام مُسافروں کے لیے گاڑیوں کے انتظامات مقامی انتظامیہ ہی کرتی ہے اور ان کے ساتھ سکیورٹی فورسز کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
یاد رہے کہ پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے لوگ سیکورٹی فورسز کے نگرانی میں جانے والے قافلوں میں بھی مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں اور ان پر کئی بار حملے ہوچکے ہیں جس میں درجنوں لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔