مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی دوڑ
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس
ماضی میں ایک اصطلاح "لڑاؤ اور حکومت کرو” یعنی Divide and Rule چلتی تھی، اس اصطلاح یا حربے کی افادیت اگرچہ ابھی بھی کم نہیں ہوئی، لیکن مشرق وسطیٰ میں اس اصطلاح کے ساتھ ایک اور اصطلاح بھی عملی طور پر رائج ہے اور وہ "ڈراؤ اور ہتھیار بیچو” بھی ہے۔ آج مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے پاس اس سے بہتر کوئی حربہ نہیں، البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ڈراؤ اور ہتھیار بیچو سے پہلے لڑانا اور اختلاف ڈالنا بھی اشد ضروری ہے، کیونکہ اگر اختلافات نہیں ہونگے تو ایک دوسرے سے خطرے اور خوف کا احساس بھی نہیں ہوگا۔ امریکہ نے مشرق وسطیٰ کے کمزور عرب ممالک کو ہمیشہ دوسرں سے ڈرا کر ان سے سکیورٹی اور دفاع کے نام پر اربوں ڈالر بٹورے ہیں۔ اس موضوع کو سمجھنے کے لئے تھوڑا سا ماضی میں جانا ہوگا۔ ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی”Two Pillar Policy” یعنی دو ستونوں پر استوار معروف پالیسی تھی۔ دو ستونوں سے مراد خطے میں امریکہ کے دو بڑے اتحادی ایران اور سعودی عرب تھے، امریکہ علاقے میں ان کو دو ستون قرار دیتا تھا۔
رضا شاہ پہلوی کا ایران امریکہ کی سکیورٹی کا ایک ستون تھا اور سعودی عرب وائٹ ہاؤس کے لئے اقتصادی ستون کا کام دیتا تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ کو بے آبرو ہو کر ایران سے اپنا بوریا بستر سمیٹنا پڑا اور یوں امریکہ خطے میں ایک ستون سے محروم ہوگیا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ کی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے لئے سعودی عرب اکیلا رہ گیا، لیکن بہت جلد امریکہ نے خلیج فارس کے دیگر ممالک کو بھی اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ کہیں اپنا فوجی اڈہ بنا لیا اور کہیں اپنا دفاعی میزائل نظام نصب کر دیا۔ سعودی عرب اور خلیج فارس کے دیگر تیل سے مالا مال ممالک سے ڈالر بٹورنے کا ایک امریکی حربہ یہ تھا کہ ان ممالک میں ایران فوبیا اور شیعہ فوبیا کا ماحول پیدا کرکے ان کے دلوں پر ایران کا خوف بٹھایا جائے۔ امریکہ اپنی عیاری اور سعودی عرب سمیت خطے کے عرب ممالک اپنی داخلی کمزوریوں اور عوامی حمایت سے محروم خاندانی حکومتی نظام کیوجہ سے اس دام میں گرفتار ہوگئے۔ امریکہ نے مختلف معاہدوں اور سمجھوتوں کے نام پر انہیں اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچنے کا منصوبہ تشکیل دیا اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب بھی ہوگیا۔ ایران چیختا چلاتا رہا کہ آؤ مشترکہ دفاع کے معاہدے کر لیتے ہیں، نہ ہم آپس میں جنگ لڑیں گے اور نہ کسی باہر کی طاقت کو حملہ آور ہونے کی اجازت دیں گے، بلکہ اگر کسی بیرونی طاقت نے حملے کی جرات کی تو مل کر اسکا مقابلہ کریں گے۔
خلیج فارس کے ممالک نے ایران کی اپیل پر کان دھرنے کی بجائے امریکی وعدوں پر بھروسہ کیا اور اس کے بعد سے اس خطے میں ہتھیاروں کی ایسی دوڑ شروع ہوگئی، جو رکنے اور تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ کاش ہتھیاروں کی یہ خریداری غاصب اسرائیل سے مقابلے کے لئے ہوتی۔ مظلوم فلسطینوں کی حمایت اور غزہ کے کئی سالوں پر محیط محاصرے کے خاتمے کے لئے ہوتی، لیکن یہ ہتھیار کبھی یمن، کبھی شام اور کبھی دوسرے امریکی اہداف کے حصول کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سعودی عرب اور خطے کے دیگر عرب ممالک اگر امریکی، فرانسیسی اور برطانوی ہتھیاروں پر خرچ کی جانے والی خطیر رقم کو اپنے ملک کے عوام پر اور عالم اسلام میں سرمایہ گزاری کرتے تو آج خطے اور عالم اسلام کی صورت حال کافی مختلف ہوتی۔
دنیا میں اسلحہ مارکیٹ، اسکے پیچھے وسیع سرمایہ اور اسکے نتیجے میں وجود میں آنے والی عالمی اسلحہ لابی آج بھی دنیا کے بڑے بڑے بین الاقوامی مسائل اور عالمی جنگوں میں ملوث ہے۔ امریکہ میں وائٹ ہاؤس میں پہنچنے والا امریکی صدر بھی اس لابی کی حمایت کے بغیر اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتا۔ 2018ء تک کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو واضح طور پر درک کیا جا سکتا ہے کہ گذشتہ سالوں میں عرب ممالک نے جتنی مقدار میں امریکہ اور یورپی ممالک سے جدید ترین اسلحہ خریدا ہے، وہ کئی ممالک کے ملکی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ اکثر عرب ممالک اسلحہ خریداری اور بظاہر دفاعی بجٹ کے نام پر خرچ کی جانے والی رقوم کو اعداد و شمار میں ظاہر نہیں کرتے، لیکن مجموعی طور پر اخراجات اربوں ڈالر پر مشتمل ہیں اور محتاط اندازے کے مطابق عرب ممالک نے گذشتہ ایک عشرے میں ایک کھرب ڈالر سے زیادہ ہتھیار خریدے ہیں۔
اسلحہ کی خریداری کی مد میں آنے والی خطیر رقوم کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب حلیفوں اور حریفوں کو اسلحے کی خریداری کے بل بوتے پر بلیک میل کرتا ہے، اس کی تازہ مثال جمال خاشقجی کا بہیمانہ قتل ہے، دنیا بھر کی رائے عامہ اور عالمی برادری نے آل سعود بالخصوص محمد بن سلمان کی کھلم کھلا مذمت کی، لیکن ڈونالڈ ٹرامپ نے صرف اس لئے انتہائی محتاط رویہ اپنایا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ سعودی عرب جیسا ہتھیاروں کا بڑا خر
یدار اسکے ہاتھ سے نکل جائے اور روس اور چین اسے جھپٹ لیں۔ امریکی حکام نے آل سعود کو جمال خاشقجی کا ذمہ دار ٹھہرا کر مذمت کرنے کی کوشش کی تو سعودی عرب نے فوراً اعلان کر دیا کہ اگر مغرب نے ریاض کے خلاف کسی قسم کی پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنی ضرورت کے ہتھیار روس سے لینا شروع کر دے گا۔ قابل ذکر ہے کہ امریکی کانگریس اور سینیٹ نے 13 دسمبر 2018ء کے دن محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرا کر باقاعدہ قرارداد منظور کی اور ٹرامپ حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکہ سعودی عرب کی فوجی پشت پناہی ترک کر دے۔
سعودی عرب کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے 2017ء میں فوجی شعبے میں ستر ارب ڈالر خرچ کئے۔ ان اعداد و شمار کے بعد عالمی امن کے بارے میں تحقیق کرنے والے استکھلم انسٹی ٹیوٹ نے جو اعلان کیا ہے، اس کی روشنی میں امریکہ اور چین کے بعد فوجی بجٹ کے حوالے سے سعودی عرب کا تیسرا نمبر ہے۔ سعودی عرب، بحرین اور امان نے گذشتہ عشرے میں ہتھیاروں کی خریداروں پر 16 ارب 900 ملین ڈالر خرچ کئے ہیں۔ خلیج فارس کے ان ممالک کا مجموعی سالانہ دفاعی بجٹ ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ ان ممالک کو سب سے زیادہ ہتھیار بیچنے والا ملک امریکہ ہے، اس کے بعد برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسپین اور اٹلی کا نمبر آتا ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ کی مطابق سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ چودہ ارب 500 ملین ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری کا ایک معاہدہ حال ہی میں کیا ہے، اسی طرح 2017ء میں ایک سو دس ارب ڈالر کا بھی معاہدہ ہوا تھا، جس کے مطابق امریکہ دس سالوں میں خطیر رقم کے بدلے سعودی عرب کو جدید ہتھیار فروخت کرے گا۔
دوسرے عرب ممالک کا اگر مختصراً ذکر کریں تو عراق نے 2017ء تک امریکہ سے 30 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا تھا۔ 2019ء میں بھی عراق نے امریکہ اور برطانیہ سے بڑی مقدار میں ہتھیاروں کی خریداری کا معاہدہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ شام نے بھی گذشتہ چند سالوں میں 22 ارب ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ روس اور دیگر ملکوں سے خریدا ہے۔ قطر بھی اسی طرح تمام تر داخلی اقتصادی مشکلات کے باوجود دوسرے ممالک سے ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار ہے۔ قطر نے دسمبر 2018ء میں قاہرہ میں ایک بین الاقوامی اسلحہ کی نمائش کا اہتمام کیا، جس میں اکتالیس ممالک کی تین سو تہتر اسلحہ ساز کمپنیوں نے شرکت کی۔ مصر نے یہ نمائش منعقد کرکے اسلحہ کے عالمی ڈیلروں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ جدید ہتھیاروں کی خریداری میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے۔ مصر نے اس نمائشگاہ میں فرانس، چین، اٹلی وغیرہ سے ہتھیاروں کی خریداری کے پندرہ مختلف سمجھوتوں پر دستخط کئے ہیں۔ مصر 2017ء میں اسلحہ کی خریداری کے حوالے سے سعودی عرب اور ہندوستان کے بعد تیسرے نمبر پر تھا۔ مشرق وسطی کے ممالک کے علاوہ عالم اسلام کے دیگر ممالک منجملہ مراکش، الجزائر وغیرہ بھی مغربی ممالک کے تیار کئے گئے جدید ہتھیاروں کے خریدار ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے چند ممالک کے فوجی بجٹ اور ہتھیاروں پر خرچ ہونے والی خطیر رقم کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ ان ممالک کو اسرائیل کے علاوہ بظاہر ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیئے، لیکن ہم اس بات کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں کہ ان ممالک میں سے کوئی بھی اسرائیل کے مقابلے میں آنے کا دور دور تک کوئی ارادہ نہیں رکھتا بلکہ صورت حال اس کے برعکس ہے اور آئے روز سعودی عرب، مصر اور بحرین جیسے ممالک کی اسرائیل سے قربتوں کے واقعات زبان زد خاص و عام ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اربوں ڈالر کے یہ جدید ہتھیار کس کے خوف سے خریدے جا رہے ہیں۔ کیا ان تمام ممالک کو ایران سے خطرہ ہے۔؟ ایران کے اسلامی انقلاب کا چالیس سالہ ماضی تو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کی ارضی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ تمام ہمسایہ ممالک کے امن اور سلامتی کو اپنا امن اور سلامتی قرار دیتا ہے، ایسے میں اس خطرناک سازش کے پیچھے وہی امریکی صہیونی لابی ہے، جو "ڈراؤ اور ہتھیار بیچو” کے منصوبے کو آگے بڑھا رہی ہے۔