شہدائے کربلا اور اہل بیت علیہم السلام کے عاشقوں کی سرزمین سندھ سازشوں کی زد پہ
تحریر: ش۔ع علی
دنیا بھر کی طرح پاکستان میںبھی شہدائے کربلا اور اہل بیت علےہم السلام سے عشق و محبت سنی شیعہ مسلم اتحاد کی علامت ہے۔یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ یہ عشق مسلم اور غیر مسلم اتحاد کی علامت کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس اتحاد کے انداز میں ےکسانیت بھی ہے اور بعض مقامات پرعشق و محبت کے انداز مختلف بھی ہیں۔ لیکن حضرت ابوالفضل العباس ع (غازی عباس علمدار )کے ” علم پاک ‘ـ’
ان دشمنوں کا نام بھی ہے اور چہرہ بھی۔ یہ ایک کالعدم تنظیم اور اس کی ذیلی شاخیں ہیں۔ کالعدم تنظیم نام بدل کر بھی وہی کام کر رہی ہے جو وہ کرتی آئی ہے۔ عجیب صورتحال ہے۔ ملک میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوںکے خلاف ایک مہم جاری ہے لیکن یہ کھل کر اسلام کے محسنوں کی نشانیوں کو مٹانے میںمصروف عمل ہیں۔ کیا اللہ کے اولیاء کا اور ان کے مزارات کا احترام واجب(فرض ) نہیں ہے۔ کیا ان دہشت گردوںاور انتہا پسندوں نے مزارات پر دہشت گردانہ حملے نہیں کئے؟یہ ایک ہی گروہ ہے ۔ اس کا ایک نظریہ ہے ۔ یہ کبھی بھی ان مذموم حرکتوں سے گریز نہیں کرتا کہ یہ دشمنی اس کی فطرت ثانیہ اور سرشت کا حصہ بن چکی ہے۔
کیا ” علم پاک ” کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے؟ اصل سوال یہی ہے اور اسی کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔ اسکا جواب یہ ہے کہ دین اسلام میں علم (پرچم ، جھنڈے، فلیگ)کی مسلمہ حیثیت رہی ہے۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ص کی حیات طیبہ میں آنجناب ص نے اپنے چچا حضرت حمزہ ع اورآنجناب ص کے ایک چچازاد بھائی حضرت جعفرطیار ٰٰع کو اسلام کی فوج کا علمدا ر مقرر کیا تھا۔ مشہور ترین تاریخی واقعہ ہے کہ جنگ خیبر میں جعفر طیار ع کے بھائی ےعنی امیر المومنین خلیفۃ المسلمین حضرت علی ع کو یہ علم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ص سنے یہ مقام و منصب عطا کیاتھا۔ قصہ مختصر کہ کربلا کی جنگ میں امام حسین ٰع نے اپنے جواںسال بھائی حضرت عباس ع کو علم دار مقرر کیا تھا۔
لہٰذا حضرت عباس ع کے علم سے بغض و کینہ رکھناجنت کے جوانوں کے ٢ سرداروں میں سے ایک امام حسین ع سے بغض و کینہ رکھنے کے مترادف ہے۔فقط یہی نہیں بلکہ علم پاک کی بے حرمتی ےزیدملعون سے محبت کا ثبوت ہے۔یہ مقا بلہ ومبارزہ علم پاک سے نہیں، نہ ہی ان افراد سے ہے جو علم پاک کو گھروں اور امام بارگاہوں پر نصب کرتے ہیں ،نہ ہی ان بچوں اور جوانوں سے ہے جو جلوسوں میں، گلیوں محلوںاور گھروں میں یہ علم اٹھاتے یا سجا کررکھتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے۔ یہ حسینیت بمقابلہ ےزیدیت ایک جنگ ہے جو طول تاریخ میں شہدائے کربلا اور اہل بیت علیہم السلام کے عاشقوں پر مسلط کی جاتی رہی ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور رخ بھی ہے ۔ ہر سال دس محرم عاشورکے روز صدر ،وزیر اعظم اور سیاستدان سمیت تقریبا سارے ہی حسینیت کی حمایت اور ےزیدیت کی مخالفت میںبیانات جاری کرتے ہیں۔ عزاداروں کے لئے سارے ہی دیدہ دل ،فرش راہ کی مانند بلکہ مجسم اس کا مظہر بنے ہوتے ہیں۔اگر سندھ کی مقدس سرزمین سمیت کہیں بھی ےزیدی ٹولہ اگر علم پاک کی بے حرمتی کرتا ہے تو یہ در اصل ےزید اور ےزیدیت سے محبت و حمایت کی ایک بھونڈی کوشش ہوتی ہے۔
پاکستان کا آئین شیعہ شہریوں کے مذہبی حقوق کوقرآن و سنت کی شیعہ تشریح کے مطابق تسلیم کرتا ہے۔ اس زاویے سے بھی یہ آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ حکومت اورحزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ وہ آئین کی بالا دستی کے قائل ہیں۔ حالات ثابت کرتے ہیں کہ آئین کی بالادستی ایک کھوکھلا دعویٰ ہے؟!حکومت اور حزب اختلاف پربھی لازم ہے کہ پاکستان کے حسینی آئین کی بالادستی کے لئے ہر سطح پر” کالعدم سپاہ صحابہ ذہنیت ـ”کا خاتمہ کریں۔خواہ وہ لشکر جھنگوی کی صورت میں ہو ےاکوئی بھی دوسرا نام اختیار کرکے یہ کام کرے۔آج سے شیعہ قیادت ،علما ء ،ذاکرین ، ماتمی انجمنیںاور نوجوان اپنے اس آئینی اور قانونی حق کو استعمال کرنے میںایک لمحے کی بھی تاخیرنہ کریں ۔