جنت کے نام پر مسلمان کو قتل کرنیوالے وحشی ہیں، علامہ جواد نقوی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سربراہ جامعہ عروۃ الوثقیٰ علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے کہ قرآن نے قصاص کو انسانی زندگی قرار دیا ہے۔ اگر حیات انسانی کو خطرے میں ڈالا جائے تو بہت بڑا جرم ہے۔ کسی بھی بہانے سے دوسرے کو مار دینا بدترین جاہلیت اور گناہ ہے۔ جنت حاصل کرنے کے نام پر مسلمان کو قتل کرنیوالے وحشی ہیں۔ دین کے نام پر عبادت سمجھ کر انسان کو قتل کرنا دہشتگردی ہے۔ انسانیت دین کا ستون ہے، انسانیت کیلئے دین ہے، انسانیت کی تکریم کیلئے دین ہے، نہ کہ انسانیت کو نابود کرنے کیلئے۔ قصاص ہر آدمی نہیں کرسکتا بلکہ شرعی حاکم کرسکتا ہے، قصاص کا اجراء حکومتوں کا کام ہے۔ جو بھی زمین میں فساد کرنے کیلئے قتل کرے یا کسی نفس کو بغیر کسی جواز کے قتل کرے یا زمین میں فساد پھیلائے یہ خدا کے نزدیک برابر ہے، ایک بندے کو قتل کرنے والا تمام بشریت کا قاتل ہے۔
مسجد بیت العتیق جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجرم صرف گولی، چھری یا چاقو سے قتل کرنیوالے ہی نہیں، کھانے پینے والی اشیا میں ملاوٹ کرکے مارنے والے بھی قاتل ہی ہیں۔ حیات انسانی کے ماحول کو گندا کرنے، پینے والا پانی گندا کرنیوالے، جعلی دوائیں بنانے والے اور انسانی غذاؤں کو آلودہ کرنیوالے قرآن کی رو سے مجرموں کے زمر ے میں آتے ہیں۔ کیونکہ سرمایہ داری نظام میں سرمائے کی اہمیت ہے، انسان کی اہمیت نہیں۔ فیکٹریوں کا گندا پانی نالیوں میں ڈالنے والے بھی انسانوں کے قاتل ہیں، کیونکہ یہ کیمیکل ملا پانی دریاوں اور فصلوں میں ڈالا جاتا ہے، تو انسانی قتل کا باعث بنتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کئی بار وضاحت کی ہے کہ ہم ایٹم بم اسلئے نہیں بناتے کیونکہ یہ انسانیت کش ہے اور یہی تقویٰ ہے۔ وہ دین نہیں جس میں حیات انسانی کی قدر و قیمت نہیں۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ سورہ مبارکہ بقرہ میں قتل میں قصاص لازم قرار دیا گیا ہے، اسی طرح انسانی اعضاء کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ یہ قصاص اور حدود تقویٰ کا حصہ ہے، اگر اس کی پرواہ نہیں کریں گے اور ترک کریں گے تو ایسے ہی ہے جیسے مسلمان عبادات کے مومن ہیں۔
انہوں نے کہا قصاص، حدود و دیت پر کوئی عمل نہیں کرتا اور کوئی پرواہ بھی نہیں، قرآن نے قصاص کو انسانی زندگی قرار دیا ہے۔ اگر حیات انسانی کو خطرے میں ڈالا جائے تو بہت بڑا جرم ہے۔ سورہ مائدہ میں حیات انسانی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ایک انسانی زندگی خطرے میں ڈالنے کو پوری انسانیت کو خطرے میں ڈالنے کو پوری انسانیت کا جرم قرار دیا جائے گا۔ انہوں افسوس کا اظہار کیا کہ ہماری دینداری قرآنی دین سے مطابقت نہیں رکھتی، کیونکہ ہم قرآن سے آگے نکل جاتے ہیں یا پیچھے رہ جاتے ہیں۔ مومن قاتل نہیں ہوسکتا، مگر قتل خطائی گناہ نہیں، لیکن اس قتل خطا سنگین جرم ہے، جس کی سزا اور جرمانہ دیت ہے، جس کا تعین اس ملک کے اقتصادی پیمانوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مومن وہ ہے جو اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہو، انبیاء کو مانتا ہو اور قیامت کو مانتا ہو اور ملائکہ پر ایمان رکھتا ہو، اس کا قتل جائز نہیں۔ اس کو قتل نہیں کرسکتے کسی بھی بہانے سے۔
حادثاتی موت ارادی نہیں ہوتی۔ اس کو قتلِ خطا کہتے ہیں۔ لیکن جو قتل عمدی ہو، اس پر سخت سزا ہے۔ خطائی جرائم کیلئے دیت جرمانہ رکھا گیا ہے۔ یہ دور حاضر کے مطابق پیمانہ کتنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اجتہاد کا موضوع ہے۔ یہ مجتہدین کا کام ہے۔ اگر خطاء مومن نے مومن کو قتل کیا تو دیت ہے، اگر جان بوجھ کر مارا تو دنیا میں قصاص ہے اور آخرت میں جہنم ہے اور اس سے چھٹکارا بھی نہیں۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت بھی ہے۔ قبائلیت میں حیات انسانی کی قدر و قیمت جاہلیت میں اور دین میں فرق دیکھا جائے گا۔ جاہلیت میں فخریہ طور پر ختم کر دیتے ہیں، آپ روز اخبار میں پڑھیں، بیٹی نے باپ کو مار دیا، بیٹے نے ماں کو مار دیا، کتنی خوفناک تہذیب ہے، آسانی سے مار دیتے ہیں۔