مضامین

طالبان سے مذاکرات، پاکستان کا مستقبل بہت بھیانک ہے

talibanاخبارات میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سہراب گوٹھ کے بعض علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں کے مضبوط ٹھکانے قائم ہیں۔ یہ علاقے پولیس کے لیے نوگو ایریاز بنے ہوئے ہیں اور پولیس ان علاقوں میں گشت آزادانہ گشت نہیں کرسکتی ہے۔ مچھر کالونی اور اس کے اطراف میں کالعدم تحریک طالبان کا مکمل کنٹرول ہے جبکہ الاآصف اسکوائر کے عقب میں اور ندی کے اطراف میں دیگر جرائم پیشہ گروپ سرگرم ہیں اور ان کے درمیان علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے تنازع چلتا رہتا ہے اور اکثر ان کے درمیان مسلح تصادم بھی ہوتا رہتا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے پولیس پر حملے بھی معمول ہیں۔ گزشتہ ماہ بھی دہشت گردوں کی جانب سے سہراب گوٹھ تھانے پر حملہ کیا گیا تھا جس ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور دو زخمی ہوئے تھے۔ گزشتہ سال متعدد پولیس اہلکار طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کیے جاچکے ہیں۔ یہاں موجود دہشت گرد اغواء برائے تاوان اور بینک ڈکیتیوں کی متعدد وارداتوں میں بھی ملوث ہیں۔

پولیس ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے میں ناکام نظر آئی ہے، شہر میں بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہوں یا بھتہ خوری کے لئے تاجروں کو دی جانے والی دھمکیاں، بینک ڈکیتیاں ہوں تا پھر اغواء برائے تاوان، پولیس کے مطابق ان میں سے اکثر وارداتوں میں طالبان ملوث پائے گئے ہیں۔ ان وارداتوں کے ذریعے یہ طالبان وزیرستان میں موجود دہشت گردوں کی مالی مدد کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان دہشت گردوں کے نشانہ پر فقط شیعہ حضرات ہی تھے لیکن اب کراچی کے عام شہری اور پولیس اہلکار حتیٰ کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان بھی طالبان کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔

کراچی کی سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں دہشت کے خلاف آواز تو بلند کرتی ہیں لیکن عملی طور پر کسی بھی کارروائی کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنے سے گریزاں نظر آتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی لہر میں کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان وارداتوں میں قابل ذکر افراد دنیائے فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ ان میں خاص طور پر ایم ڈبلیو ایم کراچی ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ آغا آفتاب حیدر جعفری، آئی ایس او کراچی ڈویژن کی ذیلی نظارت کے رکن اور ادارہ دارالثقلین کے سربراہ سعید حیدر زیدی، ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر، منظر امام سمیت سینکڑوں افراد جبکہ مکتب دیوبند کے بھی بیشتر مفتی حضرات ٹارگٹ کلنگ کی اس لہر میں نشانہ بنے ہیں۔

ستم بالائے ستم تو یہ کہ اتنی بڑی تعداد میں نشانہ وار قتل، بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان، کی وارداتوں کے بعد بھی سندھ حکومت میں وزیر داخلہ کا عہدہ خالی ہے۔ یہ عمل سندھ حکامت کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کتنا اپنے عوام کے تحفظ کی فکر میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی سیکیورٹی کے ذمہ دار ادارے اس جانب سنجیدگی سے غور کریں اور ان دہشت گردوں کو ڈھیل دینے کے بجائے ان کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے، لیکن یہ بات صرف ایک خواہش ہی نظر آتی ہے کیونکہ حکومت اپنے ہزاروں فوجی سپوتوں کی شہادتوں کو پس پشت ڈال کر، ملکی سلامتی اور مملکت خداداد کو ناامنی کے دوچار کرنے والے طالبان سے مذاکرات کرنے جارہی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ طالبان اپنے ماضی کی تاریخ کو نہ دہرائیں ورنہ پاکستان کا مستقبل بہت بھیانک ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button