اداروں نے ہوش سے کام نہ لیا تو ریاست کا قائم رہنا معجزہ ہوگا، علامہ ساجد نقوی
راولپنڈی میں اظہر حسین شاہ کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیعہ علماء کونسل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ قوم کو بتایا جائے کہ ملک پر حکمرانی کس کی ہے؟۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں اب دہشتگردوں کی حکومت ہے۔
ابنا: شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ ساجد نقوی نے کہا ہے کہ دہشتگردی کو روکنا حکومت کے بس کی بات نہیں رہی، اب تو ریاست بھی ناکام ہوتے دکھائی دے رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا، کہ بار بار کہا، حقائق بیان کیے، خودکش بمبار پکڑ کر دیئے مگر دہشتگردی کی روک تھام کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ ہماری تحریک پرامن ہے، ہم اسلحہ کی جدوجہد کے خلاف ہیں، لیکن جب قوم کو دیوار سے لگایا جائے گا تو ردعمل فطری امر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ امن کی خاطر صدر اور وزیراعظم کے پاس کئی مرتبہ گئے، ان سے ملاقاتیں کیں اور تمام حالات بیان کیے مگر کچھ نہیں کیا گیا۔
شیعہ علماء کونسل کے سربراہ نے کہا کہ وہ ملک میں جاری دہشتگردی کے حوالے سے ریاست اور ریاستی اداروں پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ قوم کو بتایا جائے کہ ملک پر حکمرانی کس کی ہے؟ ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں اب دہشتگردوں کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ وطن عزیز کے حالات انتہائی گھمبیر ہوگئے ہیں لیکن اسے بچانے والا کوئی نہیں۔
یہ بات انہوں نے راولپنڈی میں ڈھوک سیداں میں سات محرم کو بم دھماکے میں زخمی ہونے اور بعد میں شہید ہونے والے سیداظہر حسین شاہ کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
اظہر حسین سات محرم الحرام کو عزاداری کے جلوس میں ہونے والے بم دھماکے میں شدید زخمی ہوگئے تھے جو کئی روز زندگی اور موت کی جنگ لڑتے لڑتے جمعرات کو درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔
شیعہ علماء کونسل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آج دہشتگردوں کے ہاتھوں کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ کراچی میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ دہشتگرد شیعہ سنی سب کا قتل عام کر رہے ہیں لیکن انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ اس سے بڑھ کر ظلم کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ لوگوں کو بسوں سے اتار کر شناخت کرکے قتل کردیا جاتا ہے مگر ریاست لاچار اور بےبسی کی تصویر بنے دکھائی دے رہی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے چلاس میں بےگناہ افراد کا قتل عام کیا؟ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن اس ذمہ داری کو ادا نہیں کیا جارہا۔ ہمیشہ یہ کہہ کر معاملات پر مٹی ڈال دی جاتی ہے کہ ملک میں تیسرا ہاتھ ملوث ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس ہاتھ کو بےنقاب کیوں نہیں کرتے، آخر بےنقاب کرنے سے کس نے روکا ہے؟۔
ایک سوال کے جواب میں علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا کہ وہ کئی مرتبہ پیشکش کرچکے ہیں کہ ملک میں جاری شیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ اور قتل عام پر ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جو پتہ لگائے کہ اس قتل و غارت گری میں کون ملوث ہے، کون لوگ ہیں جو ملک میں امن کے دشمن ہیں اور غیروں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ڈی آئی خان میں انہیں خودکش دھماکے کے ذریعے اُڑانے کی کوشش کی گئی، ہم نے اس خودکش بمبار کو پکڑ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیا مگر تاحال کچھ نہیں بتایا گیا کہ وہ کون تھا، اسے کس نے بھیجا تھا اور کن اہداف کے تحت وہ وہاں دھماکہ کرنا چاہتا تھا؟
علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ ہم میڈیا سے اور ریاستی اداروں سے کہتے ہیں کہ وہ مظلوموں اور ظالموں کے درمیان فرق قائم کریں۔
ایک اور سوال کے جواب میں علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا کہ ملک میں کوئی فرقہ واریت نہیں، دہشتگردی کو فرقہ واریت سے نہ جوڑا جائے۔ چند افراد ہیں جو استعمار کے ایجنڈے پر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ان کا کسی مسلک اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں، یہ اپنی مخصوص تکفیری سوچ دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ سنی اور دیوبندیوں کے وسط میں بیٹھے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں سعادت بخشی ہے کہ وہ تمام دینی جماعتوں کا اتحاد قائم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، تمام اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں کوئی فرقہ واریت نہیں ہے بلکہ دہشتگردی پھیلائی جا رہی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان عناصر کو بےنقاب کیا جائے۔
شیعہ علماء کونسل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے اگر ملکی اداروں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ملک تباہ ہو جائیگا۔