عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی اور اسلامی مزاحمت
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)2003ء میں امریکہ نے عراق پر لشکرکشی شروع کی۔ اس لشکرکشی میں دسیوں ہزار امریکی فوجیوں نے حصہ لیا جبکہ بڑے پیمانے پر فوجی مشینری بھی عراق بھیج دی گئی جس کے نتیجے میں عراق پر امریکہ کا فوجی قبضہ ہو گیا۔ یوں امریکی حکومت نے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر جدید مشرق وسطی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مقدمات فراہم کرنا شروع کر دیے۔ لیکن پانچ سال بعد یعنی 2008ء میں عراق میں اسلامی مزاحمت کی بدولت امریکی حکمران پسماندگی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اپنے فوجیوں کو کویت کی جانب لے جاتے ہوئے انہیں جنرل قاسم سلیمانی اور عراق میں اسلامی مزاحمت کے کمانڈرز سے عاجزانہ درخواست کرنا پڑی کہ پسماندگی کے دوران ان کے فوجیوں کو حملوں کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ جس وقت امریکہ نے ایک لاکھ بیس ہزار فوجیوں کی مدد سے عراق پر قبضہ کیا تھا اس ملک میں اسلامی مزاحمت اپنے ابتدائی دنوں میں تھی۔ اسلامی مزاحمت کے پاس افرادی قوت کم تھی جبکہ فوجی وسائل بھی زیادہ نہ تھے لیکن اس کے باوجود اس نے قابض امریکی فوجیوں کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں شروع کر دیں۔
اسلامی مزاحمت کی جانب سے قابض امریکی فوجیوں کے خلاف ان مزاحمتی کاروائیوں میں روزانہ کم از کم چار امریکی فوجی مارے جا رہے تھے۔ جب یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا تو امریکہ عراق سے بھاگ نکلنے پر مجبور ہو گیا۔ لیکن آج عراق میں اسلامی مزاحمت کی پوزیشن اس وقت سے کہیں زیادہ بہتر ہو چکی ہے۔ آج مورال، افرادی قوت، فوجی مہارت اور فوجی وسائل کے اعتبار سے اسلامی مزاحمتی قوتیں بہت زیادہ ترقی حاصل کر چکی ہیں۔ مزید برآں انہیں عراقی عوام اور مذہبی شخصیات کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔ اسی طرح آج عراق کی اسلامی مزاحمت بہت سے قیمتی تجربات بھی حاصل کر چکی ہے۔ یہ تجربات امریکہ کی قتل و غارت اور تباہی و بربادی سے لے کر امریکی ساختہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی ویرانگری اور بربریت تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے نتیجے میں اب وہ اپنے ملک و قوم کے حقیقی دشمنوں سے اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ اور عراق کے درمیان سکیورٹی امور پر مذاکرات کا نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ان مذاکرات نے عراقی معاشرے میں حکومت کے بارے میں کچھ حد تک بدبینی بھی پیدا کر دی ہے کیونکہ وہ حکومت سے امریکی فوجیوں کے انخلا کیلئے موثر اقدامات کی توقع رکھتے ہیں۔
عراق کے مرجع تقلید آیت اللہ سید کاظم حائری نے وزیراعظم مصطفی الکاظمی کی سربراہی میں موجودہ عراقی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے امریکی فوجیوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کیلئے موثر اقدامات انجام نہ دیے تو عراق کے غیور عوام اور اسلامی مزاحمتی گروہ مراجع تقلید کے فتووں کی روشنی میں متبادل اقدامات انجام دیں گے۔ دوسری طرف شیعہ رہنما مقتدا صدر نے بھی جلد از جلد ملک سے امریکی کے فوجی انخلا پر زور دیا ہے۔ عراق کے تمام شیعہ گروہ اس مطالبے پر متفق ہیں کہ امریکہ جلد از جلد عراق سے مکمل طور پر خارج ہو جائے۔ عراق کے شیعہ مراجع تقلید اور عوام کی جانب سے اسلامی مزاحمتی گروہوں کی بھرپور حمایت کے باعث کرد جماعتیں بھی ملک سے امریکہ کے فوجی انخلاء پر مبنی اسلامی مزاحمت کے مطالبے کی حمایت کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ امریکہ نے خطے میں اپنی فوجی موجودگی کا بہانہ دہشت گردی اور داعش سے درپیش خطرات اور ان کا مقابلہ بنا رکھا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور داعش کے ساتھ برسرپیکار جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کو شہید کر کے امریکہ نے اپنا حقیقی چہرہ آشکار کر دیا ہے۔
عراق میں اسلامی مزاحمت کی فوجی صلاحیتیں اس قدر ترقی کر چکی ہیں کہ امریکہ بھی ان کا اعتراف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اسلامی مزاحمت عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو نہ صرف ملک کے قومی مفادات کے منافی قرار دیتی ہے بلکہ اسے ملک کی خودمختاری اور حق خود ارادیت کیلئے بھی خطرہ تصور کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق سے امریکہ کا فوجی انخلاء سب سے زیادہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسرائیل اس وقت شدید اندرونی مسائل اور بحرانوں سے روبرو ہے۔ لہذا اسرائیلی حکام خفیہ طور پر عرب حکمرانوں کے ذریعے امریکہ کو مالی رشوت دے کر اسے خطے میں موجود رہنے پر راضی رکھنا چاہتے ہیں۔ آج عراق میں اسلامی مزاحمت جو 2006ء سے 2008ء کے درمیان انتہائی محدود وسائل اور افرادی قوت کی مالک تھی ایک طاقتور منظم فوج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ اسلامی مزاحمت عوام اور شیعہ علماء اور مراجع تقلید کی بھرپور حمایت کے ساتھ امریکہ کیلئے ڈراونا خواب بن چکی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے امریکی حکمرانوں کو عراق میں اپنا قبضہ برقرار رکھنا انتہائی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔