دو محرم امام حسینؑ کی اہل بیت ؑ و انصار کے ساتھ کربلا آمد
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) 2 محرم 61 ھجری کو امام حسینؑ اپنےاہل بیتؑ و انصار کے ہمراہ کربلا میں وارد ہوئے اور امام حسینؑ کی سواری چلتے چلتے رک گئی۔
روایات میں ملتا ہے کہ امام حسینؑ نے 7 سواریاں تبدیل کیں لیکن کوئی بھی سواری آگے نہ بڑھی۔اس کے بعد امام حسینؑ نے قریب کی آبادی سے قبیلہ بنی اسد کے افراد کو بلایا اوردریافت فرمایا:
’’اس جگہ کا نام کیا ہے؟کسی نے کہا اسے غاضریہ کہتے ہیں۔ کسی نے کہا اسے نینوا بھی کہتے ہیں ایک بوڑھے شخص نے کہا کہ مولا اسے کرب و بلا بھی کہتے ہیں۔
امام حسین(ع) نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔ اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان وہیں اتار دیا جائے ۔
منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، امام حسین(ع) نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور گریہ کرتے ہوئے فرمایا:
اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين ۔
ترجمہ: خداوندا! ہم تیرے نبی(ص) کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے نانا رسول اللہ(ص) کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار خدایا!] بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما”۔
اس کے بعد آپ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
ان الناس عبيد الدنيا، والدين لعق على السنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل الديانون”۔
ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و رفاہ میں ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں ماہ محرم ہر اس شخص کو سوگوار کر دیتا ہے جس کے دل میں اہلبیت علیہم السلام کی محبت ہے, علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
اس کے بعد امام(ع) نے سرزمین کربلا کو ـ جس کا رقبہ 4×4میل تھا ـ نینوی اور غاضریہ کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ آپ ہماری قبروں کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔
دو محرم سنہ 61 ہجری کو امام حسین(ع) اور اصحاب کربلا میں حسین(ع) کے سرزمین کربلا پر اترنے کے بعد، حر بن یزید ریاحی نے ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔ حرکا خط موصول ہونے پر عبید اللہ نے ایک خط امام حسین(ع) کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا: امّا بعد، اے حسین(ع)! کربلا میں تمہارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! یزید بن معاویہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمہیں خدائے دانائے لطیف سے ملحق [قتل] کروں یا پھر تمہیں اپنے حکم اور یزید کے حکم کی تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام”۔
مروی ہے کہ امام حسین(ع) نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک دیا اور فرمایا: جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے”۔ ابن زیاد کے قاصد نے کہا: "یا ابا عبداللہ! آپ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: "اس خط کا جواب اللہ کا دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا ۔
قاصد ابن زیاد واپس چلا گیا اور امام حسین(ع) کا کلام اس کے سامنے دہرایا اور عبید اللہ نے امام(ع) کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کا حکم دیا۔