یکساں قومی نصاب پر اہل تشیع کے اعتراضات
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) میں اس وقت ایک انتہائی حساس موضوع کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ حکومت پاکستان نے پوری قوم کو یکجہتی کی لڑی میں پرونے کیلئے، سکولوں اور کالجوں کیلئے "ایک قوم ایک نصاب” کے حوالے سے ایک تحریک کا سلسلہ شروع کیا اور اس سلسلے میں کتابوں کو مرتب کرنا شروع کیا۔ اسلامیات کے عنوان پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان کا ایک حصہ تو حکومت پاکستان نے یا پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے سرکاری اداروں میں شائع کیا اور اس میں پرائیویٹ سیکٹر کی بہت سی کمپنیوں نے بھی حکومت سے اپروول لی کہ ہم آپ کے دیئے گئے رہنماء اصولوں کے مطابق کتابیں مرتب کرکے بازار میں لانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کروڑوں کی تعداد میں کتابوں کی ضرورت تھی اور یہ حکومت پوری نہیں کرسکتی تھی۔ لہذا حکومت نے ان کمپنیوں کو یہ اجازت دی اور ان کی طرف سے کتابیں مرتب ہونا شروع ہوئیں۔ لیکن یہ شرط لگا دی گئی کہ یہ کتابیں مختلف کمیٹیاں چیک کریں گی، خاص طور پر اسلامیات کے موضوع پر جتنی بھی کتابیں ہوں گی یا جو بھی موضوعات ہوں گے، اس کو متحدہ علماء بورڈ پنجاب کے علماء اول تا آخر دیکھیں گے، تاکہ کوئی ایسا مواد اس میں شائع نہ ہونے پائے، جو قوم میں یکجہتی کے بجائے فرقہ واریت پیدا کرنے کا باعث بنے۔
متحدہ علماء بورڈ کی چار کمیٹیاں بنائی گئیں، چاروں میں ایک ایک شیعہ مسلک کا نمائندہ لیا گیا۔ اسی طرح باقی بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث نمائندے۔ جو کمیٹیاں بنیں، ان میں سے ایک کمیٹی میں بندہ ناچیز بطور رکن متحدہ علماء بورڈ ممبر بنا، ایک میں حضرت علامہ حسن حیدری صاحب، ایک میں علامہ عارف واحدی صاحب اور ایک میں ہماری خاتون ممبر سیدہ سائرہ جعفری صاحبہ۔ جب کتابوں کی روخوانی شروع ہوئی تو بہت سی جگہوں پر کچھ اختلافی مسائل اور معاملات نظر آئے۔ ہم نے تقریباً ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابوں کو حرف بحرف پڑھا اور جہاں جہاں ہمیں اعتراضات نظر آئے، ہم نے ان کو باقاعدہ الگ سے لکھا اور ان کے متبادل اپنی آراء کو بھی لکھا اور ہاوس کے سامنے پیش کر دیا۔ متحدہ علماء بورڈ کی کمیٹیوں نے بھی اس پر بحث کی اور پھر فل اجلاس ہوا، جس میں کھلم کھلم بحث ہوئی اور جو ایک دوسرے کے اعتراضات تھے، ان کے اوپر باہمی رضامندی کے ساتھ اتفاق رائے قائم کیا گیا۔ پچاسی سے نوے فیصد تک ہمارا اس میں اتفاق رہا۔ الحمدللہ بغیر کسی اختلافات کے اس وقت تک ہم نے کئی سو کتابیں چیک کیں اور ان کی منظوری دی۔
یہ خبر بھی پڑھیں جامعہ کراچی میں احتجاجی ریلی، آئی ایس او کا انجمن اساتذہ کی مکمل حمایت کا اعلان
گذشتہ ہفتے متحدہ علماء بورڈ نے کتابوں کے حوالے سے پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس پر ہمیں کچھ تحفظات تھے۔ جس سلسلے میں ہم نے الگ بیٹھ کر چیئرمین صاحب کی سربراہی میں پورے ہاوس نے مختلف موضوعات پر بحث کی اور میں نے اپنی طرف سے یہ تحفظات پیش کئے کہ جو سفارشات ہم نے مرتب کرکے بھیجی ہیں، ان پر عملی صورتحال کیا ہے؟ آگے اس پر عمل بھی ہوا ہے یا نہیں ہوا؟ جس پر متحدہ علماء بورڈ کے چیئرمین جناب طاہر اشرفی صاحب نے برملا یہ کہا کہ میں سب کے سامنے یہ اعلان کر رہا ہوں کہ جو جو سفارشات آپ لوگوں نے بالاتفاق طے کی ہیں، ہم نے وہ ساری کی ساری سفارشات متعلقہ حکام کو پہنچا دی ہیں۔ یہ جو سفارشات تھیں، یہ پہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک تھیں۔ یہ پرائیویٹ سیکٹر کی کتابیں تھیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں اختلافات نہیں تھے۔
ہمیں اختلاف تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام کے ساتھ جہاں خاتم النبیین صلی اللہ وآلہ و اصحابہ لکھا گیا۔ ہمیں اصحابہ کا اس درود میں شامل کرنا اس پر اختلاف ہے۔ ہم نے برملا اس کا اظہار کیا اور ہر کتاب میں یہ اظہار کیا اور یہ لکھ کر دیا ہے کہ سلف صالحین اور صحاح ستہ کے محدثین ہیں، شیعہ کتابوں کے محدثین ہیں، کسی نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کیساتھ درود لکھتے ہوئے اس میں صحابہ کو شامل نہیں کیا۔ لہذا صحابہ کو اس میں شامل نہیں ہونا چاہیئے۔ اصحاب کیلئے رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا عنہ کی جو اصطلاحات اور احترامی کلمات ہیں، وہ لکھے جائیں، اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اسی طرح غزوات کے بارے میں لکھا گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غزوات میں غزوہ بدر ہے، خندق ہے، خیبر ہے، فتح مکہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ ان تمام غزوات میں سے کسی میں بھی حضرت علی ابن ابیطالب علیہ الصلوۃ والسلام کا سرے سے نام تک ہی نہیں۔ جنگ بدر ہے، اس میں 70 کافر واصل جہنم ہوئے، ان میں سے 35 کو مولا علی علیہ السلام نے واصل جہنم کیا، لیکن ان کا نام ہی نہیں۔
بطور نمونہ میرے پاس کتاب صراط مستقیم اسلامیات پنجم موجود ہے۔ جو اسوہ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کی طرف سے مرتب ہو کر چیکنگ کیلئے آئی ہے۔ جسے میں چیک کر رہا ہوں۔ اس میں بھی وہی صورتحال ہے، جو پیٹرن دیا گیا، اسی پیٹرن کے مطابق غذوہ بدر میں حضرت علیؑ کا نام نہیں، غزوہ احد میں حضرت علیؑ کا نام نہیں، جس میں ذوالفقار نازل ہوئی۔ جبرئیل امین علیہم الصلوۃ والسلام نے مولا علی علیہ السلام کی فتح کو دیکھ کر جبکہ مسلمانوں کی شکست ہوچکی تھی اور آپ نے دوبارہ اپنی شجاعت کے وہ مظاہر پیش کئے کہ تلوار ٹوٹ گئی اور آسمان سے تلوار نازل ہوئی، جس کا نام ذوالفقار حیدری ہے۔ اس تلوار کیساتھ جنگ کرتے ہوئے دیکھا تو یہ قصیدہ پڑھا تھا کہ "لافتح الا علی لا سیف الا ذوالفقار” جو اس میں موجود نہیں۔
غزوہ خندق ہوا، غزوہ خندق میں یہ تو لکھا ہے کہ اتنے بائی اتنے کی خندق کھودی گئی۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ابوسفیان جو اس وقت لشکر کفار کا سپہ سالار تھا، وہ دس ہزار کا لشکر لے کر آیا تھا۔ اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔ آندھی آئی، طوفان آیا اور کافر بھاگ گئے اور مسلمانوں کو فتح ہوگئی۔ حالانکہ وہاں پر تو جنگ ہوئی۔ اگر جنگ نہیں ہوئی تو پھر اسے غزوہ کیسے کہیں گے؟ مسلمانوں کی طرف سے حضرت علی ابن ابیطالب علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے گئے، مد مقابل عمرو بن عبدود آیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مولا علیؑ کو روانہ کرتے وقت فرمایا کہ آج کُل کا کُل ایمان کُل کفر کے مقابلے میں جا رہا ہے۔ جب اس کُل کفر کا سرقلم کرکے آپ کے قدموں میں پھینکا تو آپ ارشاد فرمایا ’’ضربت علی فی یوم الخندق افضل من عبادت الثقلین۔‘‘ علی کی خندق کے دن کی ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے۔ جبکہ کتاب میں علی کا نام تک نہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں نجف، پاکستانی نیول چیف کی آیت اللہ حافظ بشیر حسین نجفی سے اہم ملاقات
خیبر میں یہ تو تذکرہ ہے کہ آپ نے مرحب کو قتل کیا لیکن آگے آپ کی شجاعت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ فتح مکہ میں آپ نے مہر نبوت پر کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی چھت پر پڑے بتوں کو توڑا تھا اور بت شکن کہلائے تھے۔ علیؑ کا نام تک اس میں موجود نہیں۔ ہم نے اعتراض کیا، ہم نے اس میں وہ اضافات لکھ کر دیئے، جن کو شامل کتاب ہونا چاہیئے۔ میرے سامنے اس وقت اسوہ والوں کی اسلامیات پنجم موجود ہے، جس کے چیپٹر نمبر 12 صفحہ نمبر 75-76 غزوات نبی موجود ہیں، لیکن کہیں بھی حضرت علیؑ کا نام موجود نہیں۔ سوائے تبوک کے کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں کہ جس میں علی ابن ابیطالب موجود نہ ہوں۔ علیؑ کی شجاعت تو پوری کائنات میں مشہور ہے اور اس علیؑ کو سرے سے تمام غزوات سے نکال دیا جائے، یہ یقیناً قابل توجہ ہے، مسلمانوں کو سوچنا چاہیئے کہ آخر یہ علیؑ سے دشمنی ہے یا علیؑ سے محبت ہے۔
لیکن کیونکہ ہم نے لکھ کر دیئے ہیں، اسی طرح مباہلہ کا واقعہ آیا تو اس میں اہلبیت کے نام لکھ کر دیئے، پنجتن پاک مولا حسنؑ، مولا حسینؑ، جناب زہراء سلام اللہ علیہا، مولا علی علیہ السلام۔ اسی طرح اور بہت جگہوں پہ اختلافات تھے، اعتراضات تھے، ان کے ساتھ ساتھ ہم نے جہاں احادیث کا تذکرہ ہوا، شیعہ کتابوں کے حوالے بھی دیئے، وہ بھی اس میں شامل کی گئیں۔ ہم نے ایک کالم میں اعتراضات دوسرے میں اس کے جوابات جو ہیں، وہ ہم نے لکھ کر دیئے اور یہ آگے بھیجے جاتے رہے۔ گذشتہ ہفتے ہم نے جب پریس کانفرس کی تو ہم نے علیحدہ سے ایک میٹنگ کی اور میں نے چیئرمین صاحب کے سامنے یہ خدشات رکھے کہ ہمیں یہ خدشہ ہے کہ ہماری یہ سفارشات آگے نہیں بھیجی گئیں اور اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے تمام ہاوس کے سامنے یقین دلایا کہ آپ کی جو سفارشات ہیں، ہم نے حرف بحرف وہاں پہنچائی ہیں۔ جس کی کاپی انہوں نے ہمیں دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
لیکن جو مرکز میں کتابیں مرتب ہو رہی ہیں۔ ہمارے مرکزی نمائندے اس سے مطمئن نہیں۔ ان کی بات کو نہیں سنا گیا اور وہاں پر کچھ اختلافی شخصیات کو اور اختلافی عقائد و نظریات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جس کیلئے انہوں نے بار بار متوجہ کیا، لیکن اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ وہ کیا ہے میں نے نہیں پڑھی اور نہ متحدہ علماء بورڈ کے چیئرمین طاہر اشرفی صاحب نے پڑھی ہیں۔ لیکن اس کی حساسیت کے پیش نظر ہم نے حکمرانوں کو متوجہ کیا، مرکز کو بتایا، وزیراعظم کو بتایا، وزیر تعلیم کو بتایا۔ سب کے سامنے باتیں رکھیں ہم نے۔ یہ ہماری قومی ذمہ داری تھی۔ جو مرکز کی باتیں آئیں تو وہاں مرکزی نمائندوں نے اپنے مرکزی قائدین کو متوجہ کیا۔ ہم سے پوچھا گیا تو ہم نے جو کچھ مرتب کرکے، لکھ کر متحدہ علماء بورڈ کے چیئرمین کو بالاتفاق بحث و تفہیم کے بعد جس پہ اتفاق ہوا، وہ چیزیں ان کو پیش کر دیں۔ ہماری طرف سے جو سفارشات گئی ہیں، وہ شامل نصاب ہونی چاہیئے۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر