راشن نہیں تو کفن ہی دے دو
تحریر: تصور حسین شہزاد
پاکستان کے آدھے سے زیادہ علاقے سیلاب کی زد میں ہیں۔ پورا بلوچستان، سندھ کے اکثر علاقے، پنجاب کا جنوبی حصہ اور نیلم وادی سے سوات تک کے علاقے سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ بلوچستان میں آنیوالا سیلاب سب سے زیادہ خطرناک تھا۔ اس سیلاب میں طغیانی تھی۔ طغیانی کے باعث زیادہ تباہی آتی ہے، بہ نسبت بہتے پانی کے۔ بہتا پانی آتا، ٹھہرتا ہے اور اُتر جاتا ہے جبکہ طغیانی والا سیلاب زیادہ خطرناک ہوتا ہے، جو سامنے آنے والی ہر چیز کو ملیہ میٹ کر دیتا ہے۔ بلوچستان چونکہ دور افتادہ علاقہ ہے، وہاں میڈیا کی رسائی ہے نہ ہی حکومت کی پہنچ۔ اس لئے وہاں ہونیوالی تباہی ابھی سامنے نہیں آئی۔ گاوں کے گاوں، شہر کے شہر دریا برد ہوچکے ہیں۔ سڑکیں بہہ گئی ہیں۔ پل ٹوٹ چکے ہیں۔ بچ جانیوالے کس حال میں ہیں، کسی کو علم نہیں، بلوچستان کی صوبائی حکومت کے اکثر حکام اسلام آباد میں مقیم ہیں اور اگر کوئی کوئٹہ میں ہے بھی تو وہ صرف کوئٹہ شہر تک محدود ہے۔ دور افتادہ علاقوں میں کیا قیامت ٹوٹی ہے، وہ ان کے علم میں ہے، نہ ہی وہ جاننا چاہتے ہیں، جاننا چاہتے ہوتے تو یقیناً اس قیامت خیز سیلاب کی تباہ کاریوں سے دنیا کو آگاہ ضرور کرتے، مگر نہیں، جو مر گئے وہ تو مر گئے اور جو زندہ ہیں، ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں، وہ بھی سسک سسک کر موت کا انتظار کر رہے ہیں۔
تونسہ شریف میں کوہ سلمان کے دامن میں واقع تمام گاوں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ وہوا تک پانی پہنچ گیا اور شہر میں بھی داخل ہوگیا، تاہم زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا، کچے مکان البتہ متاثر ہوئے ہیں۔ جو گاوں کوہ سلمان کے دامن میں تھے، وہاں اب چٹیل میدان ہے۔ مکان کہاں گئے، لوگ بچے یا نہیں، اس کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں۔ کے پی کے میں سوات، کالام، مدین، بحرین تباہ ہوچکے ہیں۔ سندھ میں بھی بہت سے علاقے تباہی سے دو چار ہوئے، مورو مکمل تباہ ہوگیا، اسی طرح لاڑکانہ تک پانی پہنچ گیا، صادق آباد سے حیدرآباد تک ہائی وے پر متاثرین بے یارو مدد گار بیٹھے ہیں۔ دیہاتوں میں مکینوں کی دولت ان کے جانور ہوتے ہیں، ان بے بسوں کے سارے مویشی سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں۔ کشمور ضلع کی تحصیل تنگوانی، قمبر، خیرپور ناتھن، خیر پور، بدین، ٹھٹھہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ دریائے سندھ کی نہریں ٹوٹنے سے تباہی آئی۔ صرف تنگوانی میں 6 ہزار مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ کشمور سے حیدرآباد تک تباہی ہی تباہی ہے۔
سندھ حکومت کیا کر رہی ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کچھ بیانات تو جاری کئے ہیں، مگر عملی طور پر تاحال کچھ نہیں کیا گیا۔ ادھر منڈا ہیڈ ورکس ٹوٹ چکا ہے، چارسدہ کے عوام سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔ نوشہرہ کلاں میں بھی پانی داخل ہوچکا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان بھی مکمل طور پر سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ رحیم یار خان، راجن پور، ڈی جی خان، مظفر گڑھ، لیہ، بھکر اور میانوالی کے اضلاع میں دوبارہ سیلاب کی وارننگ جاری کر دی گئی ہے۔ میانوالی کو بھی خالی کرایا جا رہا ہے۔ دریائے سندھ ایک بار پھر بپھرا ہوا ہے۔ اب تک سیلاب سے لاکھوں مکانات گر چکے ہیں۔ کروڑوں لوگ بے آسرا ہوچکے ہیں۔ لوگوں کے اجناس کا ذخیرہ سیلاب کی نذر ہوگیا ہے۔ کئی ایکڑ فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ اب تک سیلاب کی تباہی سے ہونیوالے نقصان کا تخمینہ 9 سو ارب روپے لگایا گیا ہے۔ سیلاب سے گندم کی کاشت تاخیر کا شکار ہو جائے گی اور کپاس اور چاول کی تیار فصل تباہ ہوچکی ہے۔
ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب کا نقصان 2010ء کے سیلاب سے کہیں زیادہ ہے۔ سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے خیراتی ادارے اور این جی اوز کام تو کر رہے ہیں، لیکن ان کا کام صرف فوٹو سیشن کے سوا کچھ نہیں۔ بہت سی این جی اوز دکھاوے کا کام کر رہی ہیں۔ ان کے کارکن وہاں جاتے ہیں، امداد اور راشن تقسیم کرتے ہوئے تصویریں بنواتے ہیں اور دس بارہ بندوں کو راشن کے پیکٹ پکڑا کر واپس لوٹ آتے ہیں۔ یوں ان کا اپنا مقصد تو پورا ہو جاتا ہے، لیکن سیلاب متاثرین ویسے کے ویسے ہی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ ہاں اس معاملے میں مذہبی فلاحی تنظیموں کی کارکردگی لائق ستائش ہے۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ، امامیہ اسکاوٹس، ماوا، تحریک لبیک، ہمدرد ڈیسزاسٹر مینجمنٹ سیل، تحریک بیداری امت مصطفیٰ، ادارہ خودی پاکستان، جے ڈی سی، المجلس ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل، شیعہ علماء کونسل، آغاز سحر گرین کمیونٹی پاکستان اور جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے متاثرین کی مدد کیلئے مثالی کام ہو رہا ہے، لیکن کہیں بھی حکومت دکھائی نہیں دے رہی۔
راقم نے ایک اعلیٰ حکومتی وزیر سے جب اس حوالے سے جاننے کیلئے رابطہ کیا تو موصوف نے فرمایا، ہم نے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات کر دی ہیں، نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنرز فعال ہیں، جیسے ہی ہمارے پاس متاثرین کا ڈیٹا آجائے گا، امدادی سرگرمیاں شروع کر دی جائیں گی۔ حکومت نے متاثرین کیلئے فنڈز مختص کر دیئے ہیں۔ وزیر موصوف کا فرمانا تھا کہ جاں بحق ہونیوالے ہر شخص کے ورثاء کو 10 لاکھ روپے، پکا مکان مکمل تباہ ہونے پر 4 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ انتہائی زخمی شخص کو 3 لاکھ روپے، شدید زخمی کو ایک لاکھ اور معمولی زخمی افراد کو بالترتیب ایک لاکھ اور 50 ہزار روپے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امدادی پیکج کے تحت متاثرین کو فوری ادائیگی کی جائے گی۔ جزوی پکے مکان کے نقصان پر امدادی رقم 40 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کر دی گئی ہے جبکہ مکمل کچے اور جزوی کچے مکان کو نقصان پر بالترتیب 2 لاکھ اور 50 ہزار روپے ملیں گے۔ اس کے علاوہ بڑے مویشی کی ہلاکت پر 50 ہزار، بھیڑ بکری کی ہلاکت پر 5 ہزار دینے کی تجویز ہے جبکہ فصلوں کے نقصان پر ساڑھے 12 ایکڑ تک فی ایکڑ 15 ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
قارئین محترم، یہ صرف ابھی فیصلہ ہوا ہے، عمل نہیں۔ سیلاب متاثرین کہہ سکتے ہیں کہ
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک
حکومت ابھی سوچ رہی ہے، جبکہ متاثرین کی حالت یہ ہے کہ وہ بے یارو مددگار حکومت کو پکار رہے ہیں۔ ایسی ایسی خوفناک تصاویر سامنے آئی ہیں کہ بے بس اور لاچار باپ ایک لاش کو رسی ڈال کر گھسیٹ کر لے جا رہا ہے۔ ایک باپ کمسن بیٹے کی لاش گود میں لئے بیٹھا ہے، ایک ماں کے سامنے چار لاشیں پڑی ہیں۔ کہیں لاشیں دفنانے کیلئے خشک زمین میسر نہیں۔ ان کی حالت ایسی ہے کہ یہ لوگ جیتے جی مر رہے ہیں اور ہمارے حکمران کرسی کرسی کھیلنے میں مصروف ہیں۔ عمران خان جلسے کر رہے ہیں تو حکمران غیر ملکی دورے، سب کو اپنی اپنی فکر ہے، عوام کا درد کسی کے سینے میں نہیں۔ زمین کے خداو، عرش والے خدا کو کیا منہ دکھاو گے؟؟ کیا یہ اقتدار ریاست کے مکینوں کی سرپرستی کا تقاضا نہیں کرتا؟؟ جب ووٹر ہی نہیں رہیں گے تو تمہیں ووٹ دیکر اقتدار میں کون لائے گا؟؟ اگر آپ کے دل میں انسانیت کا درد نہیں تو کم از کم سیاسی فائدے کیلئے ہی متاثرین کی مدد کر دو۔ راشن نہیں دے سکتے تو کفن ہی دیدو۔