مدافع حرمت قرآن و مظلومین غزہ ، صدر جمہوری اسلامی ایران آیت اللہ ابراھیم رئیسی کے پاکستان میں استقبال کی تیاریاں زور وشور سے جاری
ایرانی صدر کا استقبال دیکھ کر پاکستانی حکام بھی دنگ رہ گئے تھے۔فقید المثال استقبال کے باعث اس وقت کے امریکی صدر کا دورہ بھی منسوخ ہوگیا تھا۔
شیعہ نیوز : مدافع حرمت قرآن و مظلومین غزہ ، صدر جمہوری اسلامی ایران آیت اللہ ابراھیم رئیسی کے پاکستان میں استقبال کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں ۔ اسلام آباد اور کراچی میں شاہراہوں پر بڑی بڑی تصاویر اور خیر مقدمی بینرز لگانے کا سلسلہ شروع۔
تفصیلات کے مطابق سوموار کو ایرانی صدرابراہیم رئیسی پاکستان کا 3روزہ دورہ کریں گے۔یہ دوسرے ایرانی صدر ہیں جن کی شناخت بطور انقلابی اور روحانی شخصیت کے طور پر نمایاں ہے۔
محمود احمدی نژاد بھی پاکستان کے عوام میں بہت مقبول تھے۔آیت اللہ خامنہ ای کی مقبولیت بطور صدر بھی ایران سمیت تمام اسلامی ممالک میں تھی۔
36سال قبل آیت اللہ خامنہ ای نے بطور صدرِ ایران،پاکستان کا دورہ کیا تھا جو آج بھی ایک یادگار دن کے طور پہ یاد رکھا جاتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کے دورہ پاکستان کے بعد دوسری بار ایک بار ایسا موقع سامنے آیا ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ ایران کو کئی لحاظ سے اہم قرار دیا جارہا ہے۔
پاکستان ایران کشیدگی کے بعد پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ایرانی صدر کا دورہ طے تھا تاہم اب یہ اسرائیل ایران کشیدگی کے باعث زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
تاہم پاکستان کی حکومت نے اس دورہ کو ایران اسرائیل کشیدگی کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے پہلے سے طے شدہ پروگرام قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کی جوابی کاروائی نے اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت میں برتری ثابت کر دی ہے، عراقی تجزیہ کار
حکومت کی یہ وضاحت ایسے وقت میں آئی ہے جب امریکی سفیر نے پاکستان حکومت سے ایرانی صدر کے دورہ سے قبل اپنی تکلیف اور شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان اور ایران کے مابین گیس پائپ لائن منصوبہ بھی ادھورا ہے جس میں امریکی سامراج کی مداخلت آڑے آرہی ہے ۔
ہمیشہ کی طرح کسی بھی ایرانی صدر کے دورہ سے قبل ماحول میں ابھی کشیدگی ہے اس کشیدگی کا آغاز تو ایران پاکستان حملوں کے بعد ہوا تھا تاہم عید سے قبل پاکستان میں ایک جہادی تنظیم پر پابندی کے بعد بھی کشیدگی کا احساس کیا جار ہا ہے۔
ایرانی میڈیا پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ایک ایسی تنظیم جس کا پاکستان میں کبھی وجود نہیں رہا تاہم اس کے ماضی میں ایران سے تعلقات کے باعث ایک ایسے وقت میں پابندی لگاکر کالعدم قرار دینا ایرانی صدر کے دورہ ایران کو ناخوشگوار ماحول فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
پڑوسی ملک ایران سے 36سال بعد کسی روحانی شخصیت کی آمد پر حکومتی سطح پر تو غیر معمولی استقبال کے اقدامات دکھائے دے رہے ہیں مگر عوامی استقبال کا ماحول ابھی سازگار دکھائی نہیں دے رہا۔
دونوں ملکوں میں دیرینہ تعلقات کی مضبوطی کیلئے عوام استقبال کشیدگی کو کم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔36سال قبل جب آیت اللہ خامنہ ای نے بطور صدر ایران کا دورہ کیا تھا شیعہ سنی مسلمانوں کی یاد کی زنبیل میں اب بھی کئی واقعات تازہ ہیں۔
تسنیم ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اس دن بہت سارے لوگ ایران سے آئے ہوئے روحانی لباس میں ملبوس بزرگ شخصیت کو اپنے درمیان دیکھ کر پرجوش ہوگئے تھے۔ہر فرد ان کے دیدار کا خواہش دل میں لئے قافلے کی طرف دوڑ رہا ہوتا ہے۔
یہ جنوری کا سرد مہینہ تھا لیکن پاک ایران تعلقات میں ایسی سرد مہری نہیں تھی جیسی اب محسوس کی جارہی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کے استقبال کے لئے ہزاروں پاکستانی پنجاب سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے لاہور پہنچے تھے اور بھیڑ کی وجہ سے قدم رکھنے کہ جگہ تک نا تھی۔
ایرانی صدر کی گاڑی پاکستانیوں کی جھرمٹ میں مکمل طور پر پھنس کر رہ گئی تھی، ہرکسی کی خواہش تھی کہ قریب سے آیت اللہ خامنہ ای کا دیدار کرسکے
۔ایک رپورٹ کے مطابق بہت ساری خواتین لاہور کے دور دراز دیہاتوں سے پیدل، چالیس کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کرکے لاہور پہنچ گئیں تھیں تاکہ آیت اللہ خامنہ ای کا نزدیک سے دیدار کر سکیں۔
۔عمر رسیدہ خواتین پیدل چل چل کر اس قدر تھک چکی تھیں کہ ان میں سے بعض راستے میں ہی ماند پڑ جاتیں ہیں اور دوسری خواتین سے التماس کرتی ہیں کہ جب آیت اللہ خامنہ ای کا دیدار ہوجائے تو دعا و سلام پہنچائیں
۔ایرانی صدر نے علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دینی تھی۔
راستے میں ہزاروں لوگ لیبک یا امام کے نعرے لگا رہے تھے اور حکومت پاکستان نے مزار علامہ اقبال تک پہنچنے کے لئے 45 منٹ کا تخمینہ لگایا تھا تاہم لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے 4گھنٹے سے بھی زیادہ کا وقت لگاتھاپاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق 15کلومیٹر کے فاصلے تک لوگوں کی بھیڑ تھی لوگ نعرے لگاتے ہوئے صدر کی گاڑی کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا رہے تھے یہ سماں دیکھ کر ہر کوئی حیران ہو رہا تھا کہ آج پاکستان میں کیا ہونے جارہا ہے۔
صدرِ پاکستان ضیاء الحق نے کہا تھا آیت اللہ خامنہ ای کے پاکستان میں کروڑوں چاہنے والے ہیں۔
ایرانی صدر کا استقبال دیکھ کر پاکستانی حکام بھی دنگ رہ گئے تھے۔فقید المثال استقبال کے باعث اس وقت کے امریکی صدر کا دورہ بھی منسوخ ہوگیا تھا۔
36سال بعد برادر اسلامی ممالک ایران کے صدر کے حالیہ دورہ کا مقصد دونوں ممالک میں کشیدگی کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے بلاشبہ پڑوسی کبھی نہیں بدلے جاسکتے دور کے رشتہ داروں سے بہتر پڑوسی ہوتے ہیں دونوں ممالک میں کئی لحاظ سے ثقافتی دینی،تاریخی، فرہنگی مشترکات بھی ہیں جو دونوں ممالک کے عوام اور حکومتوں کو یکجا کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کی جوابی کاروائی نے اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت میں برتری ثابت کر دی ہے، عراقی تجزیہ کار
ڈاکٹر ابراہم رئیسی کی شناخت بطور پاسدارِ اسلام، سربازِ اسلام ،یاور مظومینِ جہاں و فلسطین، دشمنِ مستکبرین حامی مستضعفین نمایاں ہے۔
ایرانی صدر کا عوامی فقید المثال اور گرم جوشی سے استقبال دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید خوشگوار اور مضبوط کرسکتا ہے۔
دوسری جانب سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پیر 22 اپریل سے 24 اپریل تک پاکستان کا دورہ کریں گے۔
ایرانی صدر دورہ پاکستان کے دوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی جائیں گے۔
ایرانی صدر پیر کو وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کریں گے، وزیراعظم کی طرف سے ایرانی مہمانوں کو ظہرانہ دیا جائے گا، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزراء ایرانی صدر سے ملاقاتیں کریں گے۔
پیر کی شام ایرانی صدر ابراہیم رئیسی صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے۔
ایرانی صدر منگل کو لاہور جائیں گے، لاہور میں ایرانی صدر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور گورنر پنجاب بلیغ الرحمان سے ملاقات کریں گے۔ گورنر پنجاب کی جانب سے ایرانی صدر کو ظہرانہ دیا جائے گا۔؎
منگل کو ہی ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچیں گے، کراچی میں ایرانی صدر کی وزیراعلیٰ سندھ اور گورنر سندھ سے ملاقاتیں ہوں گی۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی میں مزار قائد پر حاضری دیں گے۔