یوم نکبہ! فلسطینیوں کی واپسی قریب ہے
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
فلسطینی عوام ہر سال سرزمین فلسطین پر اسرائیل کے ناپاک اور غاصبانہ وجود کے قیام کے دن کو یوم نکبہ مناتے ہیں۔ یوم نکبہ 15 مئی سنہ1948ء کا دن ہے۔ یعنی وہ دن جس دن امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت یورپی ممالک نے فلسطین میں غاصب صیہونی آبادکاروں کے لئے اسرائیل نام کی ناجائز ریاست کو وجود بخشا تھا۔ یہی وہ دن ہے کہ جس روز ایک ہی دن میں غاصب صیہونی آبادکاروں نے فلسطین کے پندرہ لاکھ مقامی فلسطینیوں کو گھروں سے نکال کر فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن کیا۔ ان فلسطینیوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے گھر اور وطن کو چھوڑ کر لبنان، شام، اردن اور مصر کے علاقوں میں چلے جائیں۔ یہی دن ہے کہ جس دن غاصب صیہونیوں نے برطانوی اسلحہ اور حکومت کی مدد سے پورے فلسطین کے چھ سو سے زیادہ دیہاتوں اور قصبوں میں کھلے عام قتل عام کیا اور ہزاروں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔
ظلم کی داستان یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی دن صیہونیوں کی دہشت گرد تنظیموں نے فلسطین کے علاقوں میں پینے کے پانی کے لئے جانے والی پائپ لائنوں میں زہریلے مواد شامل کئے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی۔ ان تمام تر انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے ہی فلسطینی عوام 15 مئی کے دن کو یوم نکبہ کہتے ہیں۔ نکبہ دراصل نکبت عربی کے لفظ سے لیا گیا ہے کہ جس کے معنی بہت ہی بھیانک تباہی اور بربادی کے ہیں۔ موجودہ حالات میں فلسطینی عوام ایک مرتبہ پھر نکبہ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ سنہ1948ء سے آج تک گزرنے والے 76 سال روزانہ ہی فلسطینیوں کے لئے کسی نکبہ سے کم نہیں گزرے ہیں۔ سات اکتوبر کے بعد سے غزہ میں ہونے والی ہولناک نسل کشی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے زخموں کو تازہ کر دیا ہے اور سنہ48ء کے نکبہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔
فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان بہت طویل ہے۔ نکبہ کی حقیقت بھی انتہائی تلخ ہے، لیکن یہ بات بھی حق ہے کہ فلسطینی عوام نے سنہ48ء کے بعد سے آج تک ان پورے 76 سالوں میں کبھی بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے مظالم کے سامنے سر نہیں جھکایا ہے۔ قربانی دینے کو ترجیح دی ہے۔ اپنے گھر بار کو لٹایا ہے لیکن ذلت کی زندگی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اسی جدوجہد کا تسلسل فلسطینی مزاحمت کی سات اکتوبر کو طوفان اقصیٰ کی صورت میں آنے والی ایک کوشش ہے۔ فلسطینی عوام بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، صبر اور استقامت کا پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔ ایک بڑے مقصد کی خاطر بہت بڑی قربانی بھی دے رہے ہیں۔
ایسے ہی حالات میں یوم نکبہ آرہا ہے، جو ایک مرتبہ پھر جہاں سنہ48ء کے نکبہ کی یادوں کو تازہ کر رہا ہے، وہاں ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے حق واپسی کی مہم کو بھی تقویت پہنچا رہا ہے، کیونکہ گزرے ہوئے 76 سالوں میں جہاں فلسطینی عوام نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ظلم کا سامنا کیا ہے، وہاں ساتھ ساتھ فلسطین سے جبری نکالے جانے والے فلسطینیوں نے ہمیشہ فلسطین واپس آنے کے حق سے دستبرداری سے انکار کیا ہے۔ یعنی فلسطینی عوام ہمیشہ یوم نکبہ کو اپنے وطن واپس آنے کا دن بھی قرار دیتے ہیں، کیونکہ اسی دن ان کو نکالا گیا تھا تو یہ دن ہی ان کے حق واپسی کے ساتھ ساتھ وطن واپس آنے کی علامت اور امید بھی بن چکا ہے۔
موجودہ صورتحال میں کہ جب غاصب صیہونی حکومت مزاحمت کے محاذ کے سامنے آئے روز شکست پذیر ہو رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں عوامی بیداری فلسطین کے حق میں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ مغربی دنیا میں عوام اور اساتذہ سمیت طلباء کی بڑی تحریکیں کھڑی ہوچکی ہیں، جو فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھا رہی ہیں۔ غاصب صیہونی آبادکار مقبوضہ فلسطین سے فرار کر رہے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں نے زور پکڑ لیا ہے، جو اندر سے ہی صیہونیوں کی ناجائز حکومت کو نابود کرنے کے لئے ایک قدم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین سے ایک نیا انقلاب شروع ہوچکا ہے، جو پوری دنیا کی سرحدوں سے نکلتا ہوا پھیل رہا ہے اور یہی انقلاب ہی فلسطین کی مکمل آزادی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا اور اسرائیل کی نابودی ہوگی۔
فلسطینی عوام اپنے وطن واپس آنے کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بدلتے ہوئے انقلابی حالات میں فلسطییوں کا کہنا ہے کہ وطن واپسی قریب ہے۔ آج پورے فلسطین میں فلسطینیوں کی واپسی قریب نظر آرہی ہے۔ فلسطین سے باہر موجود فلسطینی جلا وطنوں کی آواز بھی یہی ہے کہ واپسی قریب ہے۔ حقیقت میں فلسطینیوں کی اپنے وطن فلسطین واپسی ہی مسئلہ فلسطین کا ایک منصفانہ حل ہے، تاہم دنیا بھر کی حکومتوں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے رضاکاروں کو چاہیئے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کے لئے بھرپور کردار ادا کریں۔