
شہباز شریف کا دورۂ تہران، سرحدی سلامتی سے توانائی کے معاہدوں تک ایران و پاکستان کی ہمقدم پیش رفت
شیعہ نیوز: ایران اور پاکستان علاقائی تعاون کو فروغ دے کر دہشت گردی، سرحدی سیکورٹی اور دیگر چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کے خواہاں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، بین الاقوامی ڈیسک؛ ایران اور پاکستان اگرچہ بعض اوقات باہمی چیلنجز کا سامنا کرتے رہے ہیں، تاہم دونوں ممالک نے ہمیشہ سیاسی اور اقتصادی میدان میں تعاون کو برقرار رکھنے اور فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ دونوں نہ صرف پڑوسی ممالک ہیں بلکہ ان کے درمیان گہرے ثقافتی، تاریخی اور جغرافیائی روابط بھی موجود ہیں۔ اسلام آباد اور تہران کے تزویراتی تعلقات کا فروغ خطے میں امن و استحکام کے لیے مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔
تاریخی پس منظر کے حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی جمہوریہ ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ دونوں ممالک اپنے اسٹریٹیجک وژن کے تحت سیاسی و اقتصادی تعاون کو قومی سلامتی کا جزو قرار دیتے ہیں۔
شہید ابراہیم رئیسی کا دورۂ اسلام آباد؛ تعلقات میں ایک نیا موڑ
ایران کے سابق صدر شہید سید ابراہیم رئیسی نے مئی 2024 میں اسلام آباد کا دورہ کیا، جسے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک سنگ میل اور تزویراتی شراکت داری کا آغاز قرار دیا گیا۔ اس دورے کے دوران دہشت گردی کے خلاف جدوجہد، سرحدی سلامتی، افغانستان کی صورتِ حال اور خاص طور پر گیس پائپ لائن جیسے اقتصادی منصوبے اہم ایجنڈا کا حصہ رہے۔
وزیرِاعظم پاکستان کا علاقائی دورہ
یہ بھی پڑھیں : نتن یاہو پر تنقید کے بعد کنیسٹ کی کمیٹی برائے امور خارجہ کا رکن برطرف
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف 25 سے 30 مئی 2025 کے دوران ترکی، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان کے علاقائی دورے پر روانہ ہوں گے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فوجی جھڑپ کے بعد تقریباً دو ہفتے قبل جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے۔ اس دورے کے دوران شہباز شریف علاقائی اور بین الاقوامی امور کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تعلقات کے مختلف پہلوؤں پر متعلقہ ممالک کی قیادت سے تبادلہ خیال کریں گے۔
پاک بھارت کشیدگی کم کرانے میں تہران کا کردار
حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے تناظر میں وزیراعظم پاکستان نے ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، اور اسلام آباد اور دہلی کے درمیان تناؤ کم کرنے میں ایران کی مؤثر سفارتی کوششوں پر تہران کا شکریہ ادا کیا۔ اس گفتگو میں شہباز شریف نے اس بات پر زور دیا کہ اختلافات کو صرف بات چیت اور سیاسی حل کے ذریعے ہی سلجھایا جاسکتا ہے۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے بھی فائر بندی اور کشیدگی کے خاتمے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ جنگ اور تشدد مسائل کا حل نہیں، بلکہ یہ عوام کے دکھ اور درد میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ پائیدار حل صرف مکالمے اور باہمی تعامل سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران خطے میں امن، استحکام اور سلامتی کے قیام کی اپنی اصولی پالیسی کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان مکالمے اور روابط کے فروغ میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ اسی طرح ایران، پاکستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے آمادہ ہے۔
شہباز شریف کا دورۂ تہران: خطے میں سلامتی کے لیے مشترکہ عزم
پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف کا حالیہ دورۂ تہران، ایران اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا تسلسل سمجھا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی امور کے محقق فرزاد رمضانی بونش نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے بعد ایرانی وزیرخارجہ نے اسلام آباد اور نئی دہلی کے دورے اور دونوں ممالک کے حکام سے مشاورت کے ذریعے ایک متوازن اور ثالثی پر مبنی رویہ اختیار کیا۔ تہران کی کوشش یہ تھی کہ کشیدگی کو سرحدوں تک محدود رکھتے ہوئے اس کے ممکنہ علاقائی، سیکیورٹی اور جیوپولیٹیکل اثرات کو روکا جائے۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کا یہ دورہ، دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی روابط کے تسلسل کا مظہر ہے۔ حالیہ برسوں میں ایران اور پاکستان کے حکام کے درمیان ملاقاتوں میں اضافہ، سرحدی تعاون، اور تجارتی تبادلے میں توسیع دیکھی گئی ہے۔ دونوں ممالک اب موجودہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔
اقتصادی اور سیکیورٹی تعاون کی گنجائش
رمضانی بونش نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایران اور پاکستان کے اقتصادی تعلقات اب بھی ضروری مقدار کے مطابق نہیں ہیں۔ اگر دونوں ممالک چاہیں تو قلیل اور وسط مدتی عرصے میں ان تعلقات کو نمایاں طور پر بڑھایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرحدی سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی، اور افغانستان کے بحران جیسے اہم مسائل میں مشترکہ حکمت عملی اپنانا بھی دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے۔
ایران-پاکستان کے ماضی میں پیش آنے والے سیکیورٹی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان چیلنجز کے بعد دونوں ممالک کی قیادت نے ایک دوسرے سے ملاقاتوں اور مشاورت کا عمل بڑھایا، جسے سرحدی سلامتی کے حوالے سے ایک نیا موڑ قرار دیا جاسکتا ہے۔
رمضانی بونش نے مزید کہا کہ تہران اور اسلام آباد باہمی معلومات کے تبادلے اور عملی تعاون کے ذریعے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے زیادہ مؤثر اور مربوط حکمتِ عملی اختیار کرسکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کا بلوچستان صوبہ گزشتہ برسوں میں دہشت گرد اور علیحدگی پسند گروہوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے، اور اگر ایران-پاکستان سرحدوں پر موثر نگرانی نہ کی گئی تو یہ صورتِ حال پورے خطے کے لیے ایک شدید بحران میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے ہم آہنگی، ایران اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات میں اہم سفارتی محور کی حیثیت رکھتی ہے، اور یہ وہ معاملہ ہے جس پر وزیرِاعظم شہباز شریف کے حالیہ دورۂ تہران کے دوران تفصیلی گفتوشنید اور ممکنہ معاہدات متوقع ہیں۔
شہباز شریف کے علاقائی کی اہمیت
رمضانی بونش نے وزیرِاعظم شہباز شریف کے ترکی اور آذربائیجان کے علاقائی دورے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ سیاسی و اقتصادی تناؤ کے تناظر میں یہ علاقائی دورہ غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس تناؤ کے دوران ترکی نے بھی یکطرفہ پالیسی سے ہٹ کر کثیرالجہتی تعاون کی حمایت کی، اور اب پاکستان کی قیادت، خصوصاً وزیرِاعظم شہباز شریف، اس دورے کے ذریعے ترکی کے ساتھ تزویراتی اتحاد اور ہمہ جہت شراکت داری کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔