
شام کی تقسیم کا امریکی-صہیونی ایجنڈا، عرب حکومتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی
شیعہ نیوز: اسرائیل شام کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا، بدامنی کا دائرہ اور تقسیم کا منصوبہ دیگر عرب ریاستوں تک پھیلنے کا خدشہ ہے۔
شام میں حالیہ تیزی سے بدلتے حالات بین الاقوامی مبصرین کی نظر میں نہ صرف اندرونی بحران کا ثبوت ہیں بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ بحران صہیونی حکومت کی ایک خطرناک سازش کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد صرف شام کو نہیں بلکہ پورے عرب خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔
بین الاقوامی روزنامے القدس العربی نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل شام کو تین چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ حالیہ دنوں میں بدوی قبائل اور دروزی اقلیتوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد ابو محمد الجولانی کی نام نہاد حکومت نے مداخلت کی، جس سے اسرائیل کو شام کے داخلی امور میں زیادہ کھل کر مداخلت کا موقع ملا۔
یہ بھی پڑھیں : یونیسکو کی ایران کے ریڈیو اور ٹی وی کے کارکنوں پر صیہونی حکومت کے قاتلانہ حملوں کی مذمت
ذرائع کے مطابق، صہیونی حکومت شام میں دو اہم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے:
1. دروزی اقلیت کو قائل کرنا کہ شام اور لبنان میں ان کا سب سے بڑا محافظ اسرائیل ہی ہے۔
2. شام کے اندرونی معاملات میں گہری مداخلت اور خاص طور پر جبل الشیخ جیسے اسٹریٹجک علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا۔
اسی تناظر میں، فرانسیسی اخبار لوموند نے اسرائیل کی نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ حالیہ حملے اس وقت ہوئے جب شامی حکومت، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی طرف بڑھ رہی تھی۔ امریکہ نے شام پر سے کئی پابندیاں ختم کر دی تھیں اور تحریر الشام کو امریکی دہشتگرد فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ جولانی نے گزشتہ 9 ماہ میں جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی۔ یہ خاموشی اور تعاون شام میں اسرائیل کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔
ماہرین کے مطابق نتن یاہو کا بنیادی مقصد پورے خطے میں استحکام اور تعمیر نو کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ وہ شام کی سماجی کمزوریوں کو بنیاد بنا کر فرقہ وارانہ فساد اور داخلی تصادم کو ہوا دینا چاہتے ہیں، تاکہ عرب ممالک کے درمیان اتحاد کی کوئی صورت نہ بن سکے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے یہ منصوبہ دو طرح سے مفید ہے:
1. عرب ریاستوں میں مضبوط حکومتوں کی تشکیل کا راستہ روکا جاسکے۔
2. ایسے داخلی اختلافات پیدا کیے جائیں جو قومی وحدت کو نقصان پہنچائیں۔
اس پورے عمل میں اسرائیل کو نہ صرف امریکہ بلکہ کئی یورپی طاقتوں کی بھی پشت پناہی حاصل ہے۔
معروف تجزیہ نگار اور خطے کے اسٹریٹجک امور کے ماہر عبدالباری عطوان نے بھی اپنے ایک مضمون میں شام کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے شام میں فرقہ وارانہ فتنہ اور صہیونی مداخلت کو امریکہ و اسرائیل کے ایک تباہ کن منصوبے کی چھوٹی سی مثال قرار دیا اور واضح کیا کہ یہ واقعات دیگر عرب ممالک تک بھی ضرور منتقل ہوں گے۔ یہ عمل ابتداء میں بدامنی سے شروع ہوگا اور پھر فرقہ وارانہ و نسلی جنگوں اور ممالک کی تقسیم پر منتج ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ابو محمد جولانی صہیونیوں کی تمام امیدوں کو پورا کر چکا ہے اور اس نے دمشق کو محور مقاومت سے نکالنے، صہیونی حکومت کے لیے امن و استحکام فراہم کرنے کے اپنے وعدوں کو بھی پورا کیا ہے۔ لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود نہ تو اسے ذلت سے بچایا جاسکا اور نہ ہی اسرائیلی حملوں سے، کیونکہ اسرائیل کا اسٹریٹجک ہدف شام کا نظام نہیں بلکہ خود شام کی ساخت اور تشخص کو تبدیل کرنا ہے۔
عطوان نے کہا کہ بشار اسد کی حکومت کے بظاہر سقوط کے اعلان کے صرف چند گھنٹوں بعد ہی صہیونی حکومت نے شامی فوج کے فوجی اڈوں، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور اسلحہ کے گوداموں کو تباہ کرنے کے لیے 500 سے زائد حملے کیے۔ یہ طرز عمل اس بات کا مظہر ہے کہ اسرائیل کا مقصد صرف حکومت کا خاتمہ نہیں، بلکہ شام کے عوام، اس کی تاریخ اور اس کے قومی وجود کو مٹانا ہے، اور یہی طرز فکر آج جنوبی شام اور دمشق میں بھی صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شام کے جنوب میں جاری صہیونی منصوبے کو شمال اور مشرقی علاقوں میں بھی دہرانے کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا، جہاں نسلی و فرقہ وارانہ اختلافات کو ایک بار پھر بھڑکا کر صہیونی حکومت اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
عطوان نے آخر میں لکھا کہ امریکی-اسرائیلی منصوبہ فرقہ وارانہ اور قبیلہ پرستی کے رجحانات سے فائدہ اٹھا کر خطے میں ایک نیا مشرق وسطی تشکیل دینے کی کوشش ہے، اور یہ منصوبہ صرف شام تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ مصر، سعودی عرب، الجزائر، ترکی، لبنان اور عراق جیسے ممالک بھی اس فتنہ کی لپیٹ میں آئیں گے۔
اس کا حتمی نتیجہ یہ ہوگا کہ امریکہ سے اتحاد، اسرائیل سے تعلقات کا قیام اور واشنگٹن و تل ابیب کو کھربوں ڈالر فراہم کرنا بھی عرب حکمرانوں کی حکومتوں کو بچانے کی ضمانت نہیں بن سکے گا۔