حضرت عباس (ع) کی صفات کمالیہ
قرآن مجید کے سورہٴ مریم میں جناب زکریا کی دعا اور تمنا کا تذکرہ ملتا ہے جس سے جناب یحییٰ پیدا ہوئے-
لیکن سن ولادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے تمام محققین نے حضرت عباس کی ولادت سن ۲۶ ہجری میں بیان کی ہے-
ہندوستانی علماء نے حضرت عباس (ع) کی تاریخ ولادت میں اختلاف کیا ہے کسی نے ۱۹ جمادی الثانی، کسی نے ۱۸/ رجب، کسی نے۲۶/ جمادی الثانی بیان کی ہے لیکن اہل ایران ۴ / شعبان پر متفق ہیں، جو مطابق ہے ۱۸/ مئی ۶۴۷ء بروز منگل، آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا گیا اور عباس نام رکھا گیا-
سن ۴۰ ہجری میں حضرت علی (ع) نے سر پر ضربت لگنے کے بعد آخری لمحات میں اپنے بیٹوں منجملہ حضرت عباس (ع) کو وصیت و تاکید فرمائی کہ: رسول اللہ کے بیٹوں حسن و حسین سے منھ نہ موڑنا پھر تمام اولاد کا ہاتھ امام حسن کے ہاتھ میں دیا اور حضرت عباس کا ہاتھ امام حسین کے ہاتھ میں دیا-
جیسا کہ حضرت علی کی تمنا سے ظاہر ہے آپ نے حضرت عباس کی تربیت میں ایثار و فداکاری کوٹ کوٹ کر بھردی تھی، حضرت علی (ع) مسلسل حضرت عباس (ع) سے اس کا اظہار فرماتے رہتے تھے کہ تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے مہیا کیا گیا ہے، تمہارا مقصد شہادت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے-
ایک بار جناب ام البنین مادر حضرت عباس (ع) تشریف فرما تھیں اور حضرت عباس (ع) کا بچپن تھا مولائے کائنات نے اپنے فرزند عباس (ع) کو گود میں بٹھایا اور آستین کو الٹ کر بازووں کو بوسے دینے لگے، ام البنین نے آپ کا یہ انداز محبت دیکھ کر عرض کی : مولا! یہ کیسا طریقہٴ محبت ہے یہ بازووٴں کو بوسے کیوں دیئے جا رہے ہیں، یہ آستین کیوں الٹی جا رہی ہے، آپ نے فرمایا: ام البنین ! تمہارا یہ لال کربلا میں شہید ہوگا، اس کے شانے قلم ہوں گے، پروردگار اسے دوپر عنایت کرے گا جس سے یہ جعفر طیار کی طرح جنت میں پروز کرے گا، یہ وہ نازک لمحہ ہے جہاں ماں کی ممتا کے سامنے ایک طرف بیٹے کی شہادت ہے اور دوسری طرف جنت الفردوس، مولائے کائنات حضرت عباس (ع) کو مستقبل سے باخبر کرنے کے ساتھ دنیا کو متوجہ کررہے ہیں کہ ہمارے گھر کے بچے حالات میں گرفتار ہوکر قربانی نہیں دیا کرتے بلکہ آغاز حیات سے ہی قربانی کے لئے آمادہ رہتے ہیں-