عصمت اللہ نے 2009ء میں کراچی میں دس محرم کے جلوس پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی
شیعہ نیوز (کے پی کے) عصمت اللہ شاہین کو حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد عبوری عرصے کے لیے امیر مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل اس پر چار حملے ہو چکے تھے یہ پانچواں حملہ تھا جو کامیاب رہا۔ طالبان لیڈر کی ہلاکت میں کون ملوث ہے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پہلا شبہ اس کے مخالف طالبان رہنما خان سید عرف سجنا کی طرف جاتا ہے دونوں کی عداوت ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ نومبر 2013ء میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سجنا کو طالبان کا امیر مقرر کرنے کی افواہیں سامنے آئیں تو اگلے ہی روز عصمت اللہ نے مرکزی شوریٰ کا سربراہ ہونے کی بنیاد پر عبوری قیادت سنبھال لی۔ چند روز بعد اس نے ملا فضل اللہ کو طالبان کی قیادت سونپ دی جس کی شوری نے توثیق کر دی۔
ذرائع کے مطابق سینئر ہونے کے باوجود عصمت اللہ کی طالبان کمانڈروں سے ان بن رہتی تھی۔ عصمت اﷲ شاہین کو ایک ماہ قبل طالبان شوریٰ سے بیدخل کر کے قاری شکیل کو شوریٰ میں شامل کیا گیا تھا۔ بعض ذرائع کا دعوی ہے کہ پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے عصمت اللہ کو نشانہ بنایا ہو گا کیونکہ یہ شدت پسند فوج پر حملوں میں ملوث رہا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اس ڈیتھ سکواڈ کے حملے میں مارا گیا جو طالبان لیڈروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے بنا ہے یہ پاکستان میں امریکی انٹیلی جنس کی ہدایات پر کام کرتا ہے۔ نصیرالدین حقانی کو بھی اسی نیٹ ورک نے مارا جبکہ ڈرون حملوں میں اہداف کا تعین بھی یہی کرتا ہے۔
طالبان میں شمولیت سے قبل عصمت اللہ حر کت المجاہدین میں شامل تھا وہ ایک عشرے تک قبائلی علاقوں میں طالبان کمانڈر رہا۔ وہ جنوبی وزیرستان، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں سرگرم بیس مطلوب کمانڈروں میں شامل تھا۔ 2009ء میں حکومت پاکستان نے اس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی اسی سال جب فوج نے جنوبی وزیرستان میں کاروائی شروع کی تو بہت سے طالبان کمانڈر تتر بتر ہو گئے جبکہ عصمت اللہ نے کراچی کا رخ کیا۔ اس نے 2009ء میں کراچی میں دس محرم کے جلوس پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 43 افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہو ئے تھے۔
2011ء میں وہ قبائلی علاقوں میں واپس آیا اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ٹانک میں ایک چوکی پر حملہ کر کے ایک اہلکار کو شہید اور ایف سی کے 15 اہلکاروں کو اغوا کر لیا، بعد میں 11 کے گلے کاٹ دئیے گئے باقی جان بچا کر بھاگ نکلے تھے۔