مردہ ضمیر کون ۔۔۔ عوام یا علماء
تحریر: عبداللہ مہندس
کہنے کو تو عنوان بہت حساس ہے لیکن ساتھ ساتھ اہم بھی بہت ہے ، ایک مشکل ترین موضوع پر قلم اٹھانے کی ہمت کی ہے کیونکہ علماء شاید یہ برداشت نہ کر پائیں کہ ایک غیر روحانی ان پر تنقید کرے۔۔۔۔۔کیا کیا جائے ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی ریت پڑ گئی ہے کہ جسکے مطابق علماء کا بڑا طبقا اپنے آپ کو احتساب کے عمل سے مبرّا سمجھتا ہے، لیکن یہ ریت ڈالنے والے بھی ہم جیسے لوگ ہی ہیں۔ اسّی کی دہائی سے لیکر آج تک ملت تشیع نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ، علامہ مفتی جعفر حسین ؒکی قیادت میں قوم کی کامیابیاں ہوں یا شہیدقائدعارف حسینی ؒکی قیادت میں قوم میں تحرک و بیداری کا سفر ہو،علامہ ساجد نقوی کے 24سال سے زائد دور میں قوم کا مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب جا نا ہو یا ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ بیداری کے سفر کا از سر نو آغاز ہو ۔
ملت تشیع نے اگر ہر قدم پر نہیں تو کم از کم کم و بیش ہر اہم موقع پر استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس طویل سفر کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ قوم نے ہر مشکل وقت میں باہر نکل کر استقامت کا مظاہرہ کیا ، سانحہ امام بارگاہ علی رضا ہو یا سانحہ سندھ مدرسہ، سانحہ عاشورہ ہو یا کوئٹہ میں بے گناہ شہیدوں کے قاتلوں کے خلاف ملک گیر دھرنے ہوں۔۔۔۔۔کیا قوم نے ساتھ نہیں دیا؟ لیکن پھر بھی قوم ایک عجیب قسم کی مایوسی کا شکار نظر آتی ہے؟ روزانہ شہید ہوتے مومنین کے جنازے ہو ں تو اس میں عوام تو نظر آجاتی ہے لیکن ڈھونڈنے سے بھی علماء نہیں مل پاتے اور اب تو عوام بھی یہ کہہ کر جنازوں میں آنے سے گریزاں ہے کہ علماء تو جنازوں میں آتے نہیں ہم کیا کریں گے آکر؟
شہید تو قوم کا سرمایا ہوتے ہیں، شہیدوں کا خون تو قوموں کو خواب غفلت سے بیدار کر دیتا ہے۔۔۔۔۔لیکن یہاں ایسا کیوں نہیں؟ اگر ہم صرف کراچی کی بات کریں جہاں مومنین کو متواتر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور تقریباً ہر دوسرے دن کسی نہ کسی شہید کا جنازہ ہوتا ہے لیکن کراچی جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق 700سے زائد علماء موجود ہیں لیکن جنازے کوئی بھی نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔کیوں؟ کیا یہ علماء کی ذمہ داری نہیں کے آگے بڑھیں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنائیں جس سے وہ قوم کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتا ہے اور خوف کے سائے ملت تشیع پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔کیا علماء کی ذمہ داری نہیں کہ آگے بڑھیں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنائیں، ملت تشیع کو حوصلہ دیں ۔
جہاں دیکھو مدرسہ نما خانقاہیں نظر آتی ہیں جہاں نہ جانے کس چیز کی تعلیم دی جاتی ہے۔۔۔۔۔لیکن ان خانقاہوں نما مدرسے ان علماء کیلئے باعث اطمینان ہیں جو ایسی خانقاہ نما مدرسے میں بیٹھ کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔۔۔۔۔شاید قوم کو مدرسہ کے علاوہ کسی اور چیز کی احتیاج ہی نہیںتھی۔۔۔۔۔کہیں طلاق سینٹر کام کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں مجلے و رسائل چھپتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی چیز ہے جو نظر نہیں آتی تووہ ہے ملت کے مسائل کے حل کیلئے جدو جہد اور دشمن کی سازشوں سے مقابلے کیلئے واضح حکمت عملی ۔
میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ان مدرسوں کی ضرورت و افادیت سے انکار کروں یا اور جو دوسرے کام جاری ہیں انکا کوئی فائدہ نہیں لیکن اگر مدرسہ خانقاہ میں تبدیل ہوجائے تو پھر اسے ختم کردینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ بڑے بڑے انقلابی و جید علماء کہ جن سے قوم کو بڑی توقعات تھیں آج مدرسہ نما خانقاہوں میں محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ اسی طرح انقلاب لے آئیں گے۔۔۔۔امام خمینی (رہ) کی انقلابی جدوجہد زبانی ازبرہوتی ہے لیکن میدان عمل میںنظر نہیں آتے ۔۔۔۔۔شہید مطہری ، شہید چمران اور حزب اللہ کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔ میرا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ قابل احترام علماء کی شان میں گستاخی کروں لیکن میری نظر میں عوام کا نقطہ نظر علماء تک پہنچانا میری ذمہ داری ہے اور میں اپنی ذمہ داری سے خیانت نہیں کرسکتا۔ اسے آپ میری بدتمیزی سمجھیں یا میرے خلاف کسی بھی قسم کا فتوی دیں لیکن جو سچ ہے آپ اس سے انکاری نہیں ہو سکتے، آپ کو اپنے اندر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا اور اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ عوام کے اندر جو غم و غصہ ہے کہیں ایسا نہ ہو اس کا رخ آپ کی طرف ہوجائے، کیا ہوگا اس وقت آپ کو اندازہ ہے؟
علماء انبیا ء علیھم السلام کی میراث ہیں ۔۔۔۔۔اس حدیث سے مجھے قطعاً اختلا ف نہیں اور میں اس حدیث کے صحیح ہونے پر یقین رکھتا ہوں لیکن مجھے اختلاف ہے ان سےجو اس حدیث کو بنیاد بنا کر معاشرے میں ایک باعزت مقام حاصل کرنے کے خواہاں تو نظر آتے ہیں لیکن ملت کیلئے کسی بھی قسم کے عملی اقدام سے گریزاں نظر آتے ہیں، کیوں ؟ علماء کو انبیاء کی میراث کہا ہی اس لئے گیا ہے کہ وہ مثل انبیاء جدو جہد کو جاری رکھیں گے اور اسلام اور توحید کی بالادستی کیلئے پیش پیش ہونگے۔ نا امیدی کے خلاف جنگ کریں گے ۔ لیکن یہاں تو منصب و قیادت کے حصول کیلئے آپس میں جنگ ہوتی دکھائی دیتی ہے لیکن مایوسی کے خلاف جنگ میں کوئی بھی ہر اول دستے میں نظر نہیں آتا۔ میری آپ سے مودبانہ گذارش ہے کہ خدارا خانقاہوں سے باہر نکلیں ، قوم کو آپ کی ضرورت ہے، اپنی ذمہ داری کو ادا کریںیہ قوم کے حق میں بھی بہتر ہے اور آپ کے حق میں بھی۔
نوٹ
: شیعہ نیوز کا ادارہ تمام مقالہ نگاروں کی رائے کا احترام کرتا ہے لیکن ادارے کا مقالہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔