مضامین

علامہ مفتی جعفر حسینؒ کی زندگی پر ایک نظر

ترتیب و تدوین: سید عدیل زیدی

مرحوم قاٸد ملت جعفریہ پاکستان علامہ مفتی جعفر حسینؒ کی شخصیت پاکستان کے مذہبی منظر نامہ میں ایک جانی پہچانی اور اپنا منفرد مقام رکھتی ہے، گذشتہ روز آپ کی 39ویں برسی ایام عزاء کیوجہ سے عقیدت و احترام کیساتھ منائی گئی۔ آپ کا شمار پاکستان کے معروف علماء میں ہوتا ہے، آپ عظیم داعی اتحاد بین المسلمین، عالم باعمل، بے مثال مصنف و مترجم اور شجاع و بااصول سیاسی و مذہبی شخصیت کے مالک تھے۔ مفتی جعفر حسینؒ نے حکیم چراغ دین کے گھر میں 1914ء کو گوجرانوالہ میں آنکھیں کھولیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پانچ برس کی عمر میں اپنے چچا حکیم شہاب الدین سے حاصل کرنا شروع کی، قرآن مجید اور عربی سیکھنے کے بعد سات سال کی عمر میں احکام اور حدیث بھی انہی سے پڑھنا شروع کیا۔ احکام و حدیث کی تعلیم چچا کے علاوہ خطیب مسجد اہلسنت چراغ علی اور حکیم قاضی عبدالرحیم سے بھی حاصل کی۔ 12 سال کی عمر میں حدیث، فقہ، طب اور عربی زبان شروع کی۔

1926ء کو آپ لکھنٶ میں مدرسہ ناظمیہ چلے گئے، جہاں سید علی نقی، ظہیر الحسن اور مفتی احمد علی سے کسب فیض کیا۔ 1935ء کو مزید علم کے حصول کے لئے نجف اشرف تشریف لے گئے اور پانچ برس کے قیام کے دوران علامہ سید ابوالحسن اصفہانی جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا اور پانچ برس کے بعد وطن واپس لوٹے تو آپ مفتی جعفر حسین کے نام سے مشہور ہوگئے۔ 1948ء کو لاہور میں بعض علماء کرام کیساتھ ملکر آپ نے ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 1949ء میں آپ تعلیمات اسلامی بورڈ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1979ء میں جب سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے نفاذ اسلام کے چند جزوی اقدامات کا اعلان کیا، جن میں ایک زکواۃ کی وصولی کا بھی تھا، مگر اس اعلان میں فقہ جعفریہ کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ مفتی جعفر حسین نے اس وقت ایک پریس کانفرنس بلاکر حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ اگر فقہ جعفریہ کے پیروکاروں کے لئے باقاعدہ طور پر فقہ جعفریہ کے نفاذ کا اعلان نہ کیا گیا تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے احتجاجاً مستعفی ہو جائیں گے۔

جب فوجی ڈکٹیٹر نے اپنا رویہ نہ بدلا تو مفتی جعفر حسین نے اپنے اعلان کے مطابق استعفیٰ دے دیا، شیعہ قیادت نے آل پاکستان شیعہ کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں ایک متحدہ قومی پلیٹ فارم کی تشکیل کرکے اپنے ملی حقوق کے حصول کے لئے منظم تحریک چلانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ چنانچہ 12 اور 13 اپریل 1979ء کو بھکر میں ایک بھرپور قومی کنونشن منعقد ہوا، جو تاریخ پاکستان میں آج بھی شیعیان حیدر کرار کے بڑے اجتماعات میں شمار ہوتا ہے۔ اس کنونشن میں پہلی بار متفقہ طور پر باقاعدہ شیعہ قیادت کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ اس کنونشن مین علامہ مفتی جعفر حسین کو شیعیان پاکستان کا متفقہ طور پر قائد تسلیم کیا گیا اور فضاء ’’ایک ہی قائد، ایک ہی رہبر، مفتی جعفر مفتی جعفر، مفتی جعفر مفتی جعفر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی تھی۔ اس وقت برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے دعویٰ کیا کہ آیۃ اللہ خمینی کے بعد مفتی جعفر حسین ایشیاء کے دوسرے بڑے روحانی پیشوا تھے کہ جنہیں عوام کی اتنی بڑی تعداد نے تسلیم کیا۔

مفتی جعفر حسین نے بطور قائد ملت جعفریہ پاکستان اپنے خطاب میں ڈکٹیٹر کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ 30 اپریل سے پہلے حکومت شیعیان پاکستان کے مذہبی مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کرے، عدم قبولیت کی صورت میں 30 اپریل کے بعد شیعہ اپنے مطالبات کے حق میں ملک گیر تحریک شروع کر دیں گے، مزید یہ کہ یہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کہلائے گی۔ تنظیم کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہوگا، صوبہ، ڈویژن، ضلع، تحصیل اور موضع کی سطح پر بھی تحریک کے دفاتر قائم کئے جائیں گے۔ جنرل ضیاء الحق نے ان کے جواب میں کراچی میں یہ بیان جاری کیا کہ ’’ایک ملک میں دو قانون نافذ نہیں کئے جاسکتے، پاکستانی عوام کی اکثریت حنفی المذہب ہے، اس لئے یہاں فقہ حنفی ہی نافذ ہوگی۔‘‘ آمر کی حکومت نے کنونشن کو ممنوع قرار دیدیا، اسلام آباد کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کردی گئی، پھر بھی اسلام آباد کے لال کواٹرز کے قریب ہاکی گراؤنڈ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں اتنے جانثار جمع ہوگئے تھے کہ فوجی آمر حیران رہ گیا۔

مذاکرات سے مسائل کے حل پر یقین رکھنے والے شیعہ قائد علامہ مفتی جعفر حسین نے 2 جولائی کو جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر اس سے رات کے وقت دو گھنٹے ملاقات بھی کی، تاہم اس ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جس کے بعد 4 اور 5 جولائی کو فوحی آمر کی حکومت نے بہت سے پینترے بدلے لیکن شیعوں کا جوش و جذبہ کم نہ ہوا اور 5 جولائی کی شام کو عوام نے صدارتی سکریٹریٹ کا گھیراؤ کرلیا اور دھرنا دے کر وہیں بیٹھ گئے۔ 6 جولائی کو قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر ایک مرتب پھر پانچ رکنی وفد کے ساتھ سکرٹریٹ تشریف لے گئے اور کم و بیش بارہ گھنٹے تک مذاکرات ہوتے رہے۔ مذاکرات کا یہ دور نتیجہ خیز ثابت ہوا اور ضیاء الحق نے بالآخر شیعہ مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس موقع پر ایک معاہدہ طے پایا، جس میں جنرل ضیاء الحق نے شیعہ قیادت کو یہ یقین دلایا کہ کسی ایک فرقہ کی فقہ دوسرے فرقہ پر مسلط نہیں کی جائے گی۔

اسی روز شام کو قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین نے سیکرٹریٹ سے باہر آکر مجمع کے سامنے تاریخی فتح کی خبر سنائی اور بتایا کہ ضیاء الحق نے ہمارا مطالبہ منظور کرلیا ہے اور یہ یقین دلایا ہے کہ نہ صرف عشر و زکوۃ بلکہ ہر نئے قانون میں فقہ جعفریہ کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اس طرح قائد ملت کی ہدایت کے مطابق ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے عوام اپنے کامیابی دامن میں سمیٹے گھروں کو واپس جانے لگے۔ بھکر کنوشن کے بعد شب و روز کے طوفانی دوروں نے آپ کی صحت کو بہت متاثر کیا۔ 29 دسمبر 1982ء کو لاہور کے ڈاکٹروں نے تشخیص کیا کہ آپ کینسر میں مبتلا ہیں۔ 25 جولائی 1983ء کو آپ کو لندن لے جایا گیا، جہاں یہ رپورٹ ملی کہ کینسر کا اثر پھیپڑوں سے بڑھ کر دماغ تک پہنچ چکا ہے اور جو علاج پاکستان میں ہو رہا ہے، وہی مناسب ہے۔ 3 اگست کو لندن سے واپسی ہوئی اور 29 اگست کو طلوع آفتاب کے وقت آپ نے اس دارفانی سے رحلت فرمائی۔ آپ کی وصیت کے مطابق کربلا گامے شاہ لاہور میں ہی آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button