اسلامی تحریکیں

امریکہ کو اسرائیل کی حمایت بند کرنی چاہئے، خالد قدومی

شیعہ نیوز: فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس” کے ایران میں نمائندے "خالد قدومی” نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جنگ بندی کے لئے پیش کی جانے والی ہماری تمام شرائط عقلی ہیں اور دوسرے عناصر بھی حماس کی شرائط کی تائید کرتے ہیں۔ غزہ میں مکمل جنگ بندی، قابض صیہونی فوج کے اخراج، محاصرے کے خاتمے اور انسانی امداد کی رسائی تک کسی بھی معاہدے تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے امداد کے بہانے غزہ بندرگاہ کی تعمیر کے حوالے سے کہا کہ جیسا کہ سننے میں آ رہا ہے کہ غزہ تک انسانی امداد پہنچانے کے لئے دو بحری جہاز بالکل تیار کھڑے ہیں اس پیرائے میں اگر ہم امریکی تجویز کا جائزہ بھی لیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ فضائی و بحری راستے سے انسانی امداد بھیجنے کی بجائے رفح کراسنگ سے امدادی ٹرکوں کا آنا نسبتاََ آسان ہے۔ تاہم آپ جانتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے اس اقدام کا مقصد غزہ کی نہتی عوام کی توہین و تحقیر ہے۔ خالد قدومی نے کہا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ امداد کے حصول کے لئے جمع ہونے والے فلسطینیوں پر کس طرح حملہ کیا گیا اور انہیں شہید کیا گیا۔ اسرائیل ایسے بے شمار جنگی جرائم انجام دے چکا ہے۔

ایران میں حماس کے نمائندے نے کہا امریکہ، صیہونی رژیم کی حمایت روک اور سیاسی دباؤ بڑھا کر اپنا طریقہ کار بدل سکتا ہے مگر واشنگٹن نے آج تک صیہونی رژیم پر سفارتی دباؤ نہیں ڈالا۔ امریکہ کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کی مالی اور لاجسٹک مدد سے ہاتھ اٹھائے۔ اب تو یہ باتیں امریکی کانگریس میں بھی زبان زدعام ہیں۔ البتہ میری نظر میں کانگریس میں اسرائیل مخالف آنے والی آوازیں ایک جھوٹ اور بہانہ ہے تا کہ الیکشن میں امریکی صدر کا امیج تھوڑا بہتر کیا جا سکے۔ خالد قدومی نے جنگ بندی کا معاہدہ نہ ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلا مسئلہ نیتن یاہو کی دائیں بازو اور انتہاء پسند حکومت و کابینہ کے وزراء کا سوچنے کا انداز ہے جو اس سوچ کے ساتھ مذاکرات کی جانب نہیں بڑھ سکتا اور آج تک نیتن یاہو کے اس انداز فکر کی بنیادی وجہ سے جنگ بندی ممکن نہیں ہو سکی۔ دوسری مسئلہ امریکی دھوکہ و فریب ہے۔ واقعی اگر امریکہ جنگ بندی کروانا چاہتا ہے تو کیوں ابھی تک اس نے اسرائیل کی مالی و عسکری مدد جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں کیوں واشنگٹن نے تل ابیب کا سفارتی محاصرے اور اس پابندیوں جیسے عملی اقدامات انجام نہیں دئیے۔ لہٰذا میری نظر میں اس معاہدے تک نہ پہنچنے کی بنیادی وجہ نتین یاہو کا انداز فکر اور امریکی حمایت ہے۔

خالد قدومی نے ماہ مبارک رمضان میں امت مسلمہ سے فلسطینی عوام اور مقاومت کی امیدوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری عوام سخت مشکل میں ہے حتیٰ کہ شمالی غزہ سمیت بعض علاقوں میں پینے کا پانی بھی میسر نہیں۔ صورت حال نہایت سنگین ہے۔ بچے اور خواتین مصیبت میں ہیں۔ لیکن اللہ کی نصرت، مقاومت اور عوام کی ثابت قدمی سے دشمن گھٹنے ٹیکنے والا ہے۔ استقامتی فرنٹ کا مسلمانوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ ماہ رمضان میں فلسطینیوں کو نہ بھولنا کیونکہ ہماری عوام میدان میں سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ امت اسلام و پیامبر (ص) غزہ کے مظلومین کی مدد کے لئے نکل پڑے۔ انہوں نے اس اہم موضوع کی جانب اشارہ کیا کہ بین الاقوامی قوانین اور فطری طور پر کہیں بھی انسانی امداد کی رسائی سمیت سرحدوں کی بحالی کے لئے کسی بھی معاہدے یا سمجھوتے کی ضرورت نہیں ہوتی مگر اس سب کے باوجود غزہ کے عوام تک انسانی امداد نہیں پہنچنے دی جا رہی۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ دنیا کے عوام مذھب و ملت سے بالا تر ہو کر فلسطینی عوام کی حمایت میں آواز بلند کریں۔ انہوں نے کہا کہ دشمن جان لے کہ امت اسلامیہ ابھی تک جاری فلسطینی نسل کشی کے خلاف اس خونخوار صیہونی دشمن کے خلاف کھڑی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button