مضامینہفتہ کی اہم خبریں

شیعہ سنی مفاہمت کے حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمد کے نظریات کا ایک جائزہ

تدوین: سید نثار علی ترمذی

ڈاکٹر اسرار احمد سے بعض امور میں اختلاف کے باوجود ان کے افکار اور شخصیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے لٹریچر کا ایک عرصہ سے قاری رہا ہوں۔ بالخصوص ماہنامہ ’’میثاق‘‘ ایک لائبریری کے توسط سے زیر مطالعہ رہا ہے۔ ان کے ’’خطبات خلافت‘‘ جو جناح ہال لاہور اور الحمراء ہال لاہور میں دیئے گئے تھے، براہ راست سماعت کرچکا ہوں۔ نیز ان کا خطبہ جمعہ جو انھوں نے یکم نومبر1996ء کو جامع مسجد، باغ جناح لاہور میں دیا تھا، جو کہ شیعہ سنی مفاہمت کی اساس پر تھا، برادر ثاقب اکبر، صدر نشین البصیرہ اسلام آباد کے ہمراہ سن چکا ہوں۔ اس کے علاوہ خطبہ خلافت الحمراء پر جو اشکالات تھے، وہ میں نے تحریری طور پر اور چند کتب کے صفحات کی نقول کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو ارسال کیے تھے، جس کے جواب میں ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے خط لکھ کر موصول ہونے اور انھیں ڈاکٹر صاحب کو پیش کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

یہ بات واضح ہے کہ جو شخص بھی نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگائے، اسے شرح صدر سے کام لینا ہوگا۔ اسے فروعی اختلافات میں الجھنے کے بجائے عملی اور اصولی بات کرنی چاہیئے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب بھی ’’خلافت علی منہاج النبوہ‘‘ کا نعرہ لے کر اٹھے تھے۔ اسی لیے انھوں نے شیعہ سنی مفاہمت کی اساس کو موضوع گفتگو بنایا۔ اس عنوان سے ان کے افکار ایک کتابچے کی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ ان میں سے چند اہم نکات کو یہاں بیان کیا جا رہا ہے، تاکہ اس موقف کے سامنے آنے کے بعد ان کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں، ان کا ازالہ ممکن ہوسکے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ ان کا یہ اظہار خود مابین فریقین قربت کا سبب بنے گا۔ انھوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کا دورہ کیا، اس کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ وہ امام خمینی کی جدوجہد، حکمت عملی اور اکثریتی فقہ کو دی گئی آئینی حیثیت کو بھی پیمانہ قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ دورہ ایران سے انھوں نے اثر قبول کیا ہے، مگر انھوں نے تشیع کی طرف میلان یا سابقہ موقف میں کوئی تبدیلی آنے کی تردید کی۔

حقیقی فرقے
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے خطبہ جمعہ میں کہا کہ وہ بارہا کہہ چکے ہیں اور اب بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ مسلمانوں میں حقیقی فرقے صرف دو ہیں۔ ایک شیعہ اور دوسرا سنی۔ باقی تقسیم بھی اگرچہ موجود ہے اور ان کے درمیان شاید محاذ آرائی بھی پائی جاتی ہے، تاہم وہ فرقے نہیں بلکہ مختلف مکاتب فکر، مسالک اور فقہی مذاہب ہیں، جیسے حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور سلفی وغیرہ۔ اس کے بعد احناف میں دیوبندی اور بریلوی کی ذیلی تقسیم بھی ہے اور ان دونوں کے مابین شدید تلخی اور کشیدگی موجود ہے، لیکن یہ دونوں اصلاً ایک ہی فقہ اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کے بنیادی تصورات تقریباً ایک جیسے ہیں۔

اہل تشیع کے بارے میں موقف
مذکورہ خطبے میں انھوں نے واضح کیا کہ میں اہل تشیع کی من حیث الجماعت تکفیر کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی میرا ماضی میں کبھی یہ موقف رہا ہے بلکہ میں انھیں مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ سمجھتا ہوں۔ انھوں نے کسی شخص واحد کی تکفیر کے مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا: ’’جہاں تک انفرادی طور پر کسی شخص واحد کی تکفیر کا سوال ہے تو اس میں بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی رائے کا قائل ہے، جو خلاف اسلام ہے، لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتا بلکہ اسے چھپاتا ہے تو اس کی تکفیر بھی نہیں کی جاسکتی۔ البتہ کوئی شخص کسی خلاف اسلام عقیدہ کا قائل ہو اور اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہو تو اسے بلاریب کافر قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔‘‘

تکفیریوں کے موقف کی حمایت نہ کرنا
ماضی میں ایک مہم اٹھی، جس کے اثرات ابھی باقی ہیں، مگر ڈاکٹر صاحب نے مجمع عام میں ان کے موقف سے اظہار لاتعلقی کیا ہے اور یہ کوئی عام بات نہیں ہے، جبکہ یہ معلوم ہے کہ بڑے بڑے لوگ ان کے دبائو میں آکر ان کے غلط موقف کی حمایت کر بیٹھے۔ آپ نے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ میں کہا: ’’اگرچہ سپاہ صحابہ پاکستان کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی مرحوم کے جوش، جذبے اور خلوص و اخلاص کا میں معترف اور قائل رہا ہوں، لیکن اہل تشیع کی تکفیر کے بار ے میں ان کے موقف سے مجھے کبھی اتفاق نہیں رہا۔ چنانچہ میں نے کبھی ان کے موقف کی تائید و حمایت نہیں کی۔‘‘

شیعہ اور سنی مذاہب میں مماثلت
انھوں نے شیعہ و سنی کے درمیان مشترکات یا ایمانیات میں یکسانیت پر بات کی، وہ کہتے ہیں: ’’جہاں تک ایمانیات ثلاثہ یعنی ایمان باللہ، ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرہ جیسے بنیادی عقائد کا تعلق ہے، ان میں اہل تشیع اور اہل سنت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ بعض کلامی بحثوں میں اختلاف ضرور موجود ہیں، مثلاً ذات و صفات باری تعالیٰ کا مسئلہ کہ آیا صفات الٰہی اللہ کا عین ہیں یا اللہ تعالیٰ سے جدا ہیں؟ بقول اقبالؒ
ہیں صفات ذاتِ حق حق سے جدا یا عین ذات؟
امتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
ڈاکٹر صاحب نے اس حوالے سے معرض وجود میں آنے والے تین مکاتب فکر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان تینوں مکاتب فکر کے نقطۂ نظر میں اختلاف کے باوجود اشاعرہ اور ماتریدیہ نے معتزلہ کو گمراہ تو قرار دیا، لیکن کبھی ان کی تکفیر نہیں کی گئی۔ اسی طرح انھوں نے واضح کیا کہ ’’ایمانیات ثلاثہ‘‘ کے ضمن میں اہل تشیع کے نقطہ نظر میں جزوی یا ثانوی اختلاف کی بنا پر انھیں کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

شیعہ سنی مذاہب میں فرق
انھوں نے ان دو مذاہب کے درمیان پائے جانے والے فرق کی بھی وضاحت کی۔اس سے لگتا ہے کہ انھوں نے اس مسئلہ پر غور کیا اور اس کا نتیجہ بھی نکالا۔ ان کے اس تذکرے سے وہ گرد چھٹ جاتی ہے، جس سے ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان کے درمیان تو بہت ہی اختلاف ہے۔ پہلا فرق جو ہے، وہ اہل تشیع کے عقیدہ امامت معصومہ کا ہے، جبکہ ان کے نزدیک ’’صفت معصومیت خاصہ نبوت و رسالت ہے۔‘‘ یہ صفت صحابہ کرام کو بھی حاصل نہیں۔ اس میں بھی وہ درمیانی راہ کو اپناتے ہیں کہ امامت معصومہ میں نبوت کی کچھ خصوصیات تو یقیناً مانی جاتی ہیں، لیکن اسے نبوت تو نہیں مانا جاتا۔ لہٰذا اس سے شدید اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اسے گمراہی قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن اس بنا پر کسی کی تکفیر نہیں کی جاسکتی۔

ڈاکٹر اسرار صاحب صحابہ کرامؓ کے بارے میں اپنا مقصد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’صحابہ کرامؓ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ تمام عدول ہیں۔ ان کے مابین جو اختلافات اور نزاعات پیدا ہوئے، وہ نفسانیت اور حرص اقتدار کی بنا پر نہیں بلکہ اجتہادی خطا کی بنا پر ہوتے ہیں۔‘‘ [میرے خیال میں صحابہ کرامؓ کے بارے میں مذکورہ عقیدہ معصومیت کے قریب ترین ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ایک گروہ آئمہ اہل بیت کے بارے میں عصمت کا عقیدہ رکھتا ہے تو دوسرا لفظاً نہیں تو عملاً یہی عقیدہ صحابہ کے بارے میں رکھتاہے۔] انھوں نے یہاں آغا خانیوں کے عقیدہ امامت پر بھی بات کی۔ یہ ہماری بحث نہیں ہے، اس لیے اسے درگزر کرتے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ اس کے باوجود اثناء عشری شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تھوڑا سا فرق رہ جاتا ہے کہ پہلے گیارہ امام تو ابتدائی اڑھائی سو سال کے دوران آگئے، بارہواں امام ’’غائب‘‘ ہے۔ گویا وہ ساڑھے بارہ سو برس بقول ڈاکٹر صاحب کے امام کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ چنانچہ اب ان کے پاس صرف ایک راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ اجتہاد کریں۔ یہ اجتہاد ہمارے اور ان کے مابین مشترک ہے۔ ہم بھی کتاب و سنت سے اجتہاد کریں گے اور وہ بھی کتاب و سنت سے اجتہاد کریںگے۔ البتہ ان کے سنت کے ذرائع ہم سے مختلف ہیں۔ڈاکٹر اسرار نے یہاں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ اجتہاد کے ادارے(Institution) کو فی الواقع صرف اہل تشیع نے زندہ رکھا ہے، جبکہ اہل سنت نے تو عرصہ دراز سے اپنے اوپر اس کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔

امام مہدی
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ان افراد میں سے تھے، جو امام مہدی کے حوالے سے اکثر گفتگو کرتے ہیں۔ امام مہدی پر یقین رکھنا ان کے نزدیک دراصل اپنی تحریک کی کامیابی پر یقین رکھنا ہے۔ انھوں نے اپنے خطبہ جمعہ میں اس کو بھی موضوع گفتگو بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک ’’امام مہدی‘‘ کی شخصیت کا تعلق ہے، اس پر اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کا اس اعتبار سے اتفاق ہے کہ قیامت سے قبل ایک بڑی شخصیت ظاہر ہوگی۔ اس میں فرق یہ ہے کہ اہل تشیع ’’امام غائب‘‘ کو مانتے ہیں، جو ظاہر ہوں گے۔ وہ انھیں معصوم بھی مانتے ہیں، جبکہ ان کے نزدیک وہ آخری اور کامل ’’مجدد‘‘ ہوں گے اور وہ معصوم بھی نہیں مانتے۔

[ان کی ایک تحریر میری نظر سے گزری ہے، جس میں ڈاکٹر صاحب نے اس بات کا اظہار فرمایا تھا کہ مطلوبہ شواہد کی بنا پر ان کی نظر میں امام مہدی کی پیدائش ہوچکی ہے۔] ان کے نزدیک اہل تشیع اور اہل سنت میں یہ بات بھی مشترک ہے کہ مہدی حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں سے ہوں گے۔ البتہ ان کے نزدیک امام مہدی حضرت حسنؓ کی نسل میں سے ہوں گے۔ پھر یہ کہ عرب کے مقدس شہر مکہ مکرمہ میں ان کا ظہور ہوگا۔ [اہل تشیع کے نزدیک امام مہدی امام حسینؑ کی نسل میں سے ہوں گے] عقیدے کے اعتبار سے دونوں فرقوں میں اگرچہ کچھ فرق ضرور ہے، تاہم بالفعل وہ بھی نظر نہیں آتا۔

قرآن مجید
اس حوالے سے ان کے خطبہ جمعہ سے مکمل اقتباس نقل کیا جاتا ہے: ’’اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ جہاں تک قرآن حکیم کی محفوظیت کا تعلق ہے، اس پر کم از کم اہل تشیع کے وہ علماء جو اس وقت ایران میں برسراقتدار ہیں، قطعاً کسی شک و شبہ کا اظہار نہیں کرتے۔ ان کے علاوہ کسی کے ذہن میں کوئی اشکال ہو تو دوسری بات ہے۔‘‘ البتہ ہم یہ بات پورے یقین سے کہتے ہیں کہ اس وقت اہل تشیع میں کوئی عالم دین ایسا نہیں ہے، جو تحریف قرآن پر یقین رکھتا ہو۔ کتابوں میں درج ایسی روایات دونوں طرف موجود ہیں، جن کے ظاہر سے مختلف معنی اخذ کیا جاسکتا ہے اور جن کی فریقین تاویل کرتے ہیں یا انھیں لائق اعتناء نہیں سمجھتے۔ یہ پوری امت محمدیہ کا اجماع ہے کہ قرآن مجید محفوظ ہے اور تحریف سے پاک ہے۔

خلفائے راشدین
ڈاکٹر صاحب نے اس خطبہ جمعہ میں اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس کا ابتدائی حصہ یہاں دیا جا رہا ہے، جبکہ باقی تفصیل اسی کے ضمن میں ہے: ’’اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین اصل بنائے نزاع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالخصوص خلفائے راشدین کی حیثیت کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ہے اور اس ضمن میں دونوں فرقوں کے مابین شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ گویا شخصیات کے بارے میں تاریخی نزاع ہے۔ یہ ایسا ہی اختلاف ہے، جیسے دیوبندیت اور بریلویت کا سارا اختلاف، جو گذشتہ صدی کی دو شخصیات شاہ اسماعیل شہید اور مولانا فضل حق خیر آبادی اور موجودہ صدی کی دو شخصیات مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ورنہ دونوں گروہوں کے عقائد و نظریات میں کوئی قابل ذکر فرق موجود نہیں ہے بلکہ شخصیات کے اس نزاع سے پہلے بریلویت کا کہیں نام و نشان موجود نہیں تھا۔

اسی طرح اس بار راولپنڈی میں ہمارے سالانہ اجتماع کے موقع پر ایک ممتاز شیعہ عالم دین نے واضح کیا کہ ان کے نزدیک امامت اور خلافت میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے بلکہ امامت، خلافت اور امارت ایک ہی شے کے تین نام ہیں، لیکن شخصیات کے بارے میں اختلاف بہرحال موجود ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے شاہ ولی اللہ دہلوی اور علامہ اقبال کی مثالیں دے کر اپنے بیان میں اضافہ کیا جنھوں نے اعتدال پسندی اور حب اہل بیت کے بارے میں اپنا موقف دیا۔ اسی طرح امام بخاریؒ نے بھی اہل تشیع کے راویان سے ’’صحیح‘‘ احادیث لی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ طرز عمل ہمارے محدثین کے اعتدال کی علامت ہے۔‘‘

فقہ جعفریہ اور فقہ اہل سنت میں اختلاف
ڈاکٹر صاحب نے شیعہ و سنی فقہی اختلاف کا بھی ذکر کیا اور واضح کیا کہ یہ اختلاف انتہائی کم ہے، گویا اس کے بارے میں غلغلہ زیادہ ہے اور حقیقت بہت کم ہے۔ ’’جہاں تک فقہ کا تعلق ہے، میری رائے میں، میرے علم کی حد تک فقہ جعفریہ میں ایک ’’متعہ‘‘ کے مسئلہ کے علاوہ کوئی ایسی شے نہیں ہے، جو کسی نہ کسی سنی فقہ میں موجود نہ ہو۔ اگر کوئی فرق ہے تو وہ اسی نوعیت کا ہے، جو حنفی، حنبلی، مالکی اور شافعی فقہوں کے درمیان ہے۔ یہ موقف میرا پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔‘‘

شیعہ سنی مفاہمت کی اہمیت
انھوں نے مذکورہ خطبہ میں شیعہ سنی مفاہمت کی ضرورت پر بڑے موثر انداز میں گفتگو کی۔ ’’میرے نزدیک پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر نیو ورلڈ آرڈر یعنی نئے عالمی یہودی مالیاتی استعمار کا سدباب اس وقت تک ممکن ہی نہیں، جب تک کہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے مابین مفاہمت نہ ہو جائے۔ چنانچہ میرے نزدیک شیعہ سنی مفاہمت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔‘‘ یہاں انھوں نے قرآن مجید کی دو آیات سے استفادہ کیا۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر64 جس میں نبی کریمؐ کو اہل کتاب سے مفاہمت کے اصول دیئے گئے۔ "قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ"، "(اے پیغمبرؐ) تم کہہ دو کہ اے اہل کتاب آئو ایک ایسی بات کی طرف، جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب نہ مانے، پھر اگر (یہ لوگ اس بات سے) روگردانی کریں تو (مسلمانو ان سے) کہہ دو گواہ رہنا کہ (انکار تمھاری طرف سے ہے) ہم تو اللہ کے فرمان بردار ہیں۔”

انھوں نے متوجہ کیا کہ اگر اہل کتاب سے مفاہمت ممکن ہے بلکہ اس کا حکم دیا جا رہا ہے تو ان لوگوں کے ساتھ اشتراک و اتحاد کیوں کر ناممکن ہے، جو مسلمان ہیں اور رسالت محمدیؐ میں ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مسلمانوں میں کس چیز کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ آپ نے اس ضمن میں جو دوسری آیت تلاوت کی، وہ بھی سورہ آل عمران کی آیت 103 ہے۔ "وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَاکَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ"، "اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو، جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے، پھر اللہ نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کے فضل (وکرم) سے بھائی بھائی بن گئے۔ (تمھارا حال تو یہ تھا کہ) تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، لیکن اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اسی طرح وہ اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت پا جائو۔”

یہاں انھوں نے آیت کا پس منظر اور پیش منظر بیان کیا اور بتایا کہ ملکی اور بین الاقوامی حالات تقاضا کرتے ہیں کہ شیعہ سنی مفاہمت ہونی چاہیئے۔ آخر میں انھوں نے اپنی گفتگو کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا ’’بہرحال احیائے اسلام اور غلبہ دین حق کے لیے شیعہ سنی مفاہمت اور اتحاد کا میں سختی سے پہلے قائل تھا اور اب مزید قائل ہوتا جا رہا ہوں، وہ اس لیے کہ اس کے بغیر نہ یہاں اسلام آسکتا ہے اور نہ ہی نیو ورلڈ آرڈر کے زیرعنوان نئے عالمی یہودی مالیاتی استعمار کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے سفر ایران پر اپنے تاثرات بیان کیے جو تعریف اور تنقید دونوں پہلو لیے ہوئے ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اپنا مافی الضمیر بیان کرکے اپنا فرض تو ادا کر دیا، اب ان کے افکار سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button