مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

امریکی طلباء کے نام رہبر معظم کے خط کا ایک جائزہ

شیعہ نیوز:امریکی یونیورسٹی طلباء نے غزہ میں صہیونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرکے 1960 کی دہائی میں ویت نام جنگ کے خلاف مظاہروں کی یاد تازہ کردی۔ 50 سے زائد امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والے مظاہروں کا دائرہ امریکہ سے باہر پھیل کر آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، اٹلی اور برطانیہ وغیرہ تک پہنچ گیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی یونیورسٹی طلباء کے نام خط لکھا جس میں انہوں نے لکھا:

"یہ خط ان جوانوں کے نام لکھ رہا ہوں جن کو ان کے بیدار ضمیر نے غزہ کے بچوں اور خواتین کے دفاع پر مجبور کیا ہے۔ امریکی عزیز طلباء! یہ ہمارا آپ کے ساتھ ہمدلی اور ہمبستگی کا پیغام ہے۔ آپ اس وقت تاریخ کی صحیح سمت کھڑے ہیں جس کا ورق پلٹنے والا ہے۔ آپ اس وقت مقاومتی بلاک کا ایک حصہ ہیں اور غاصب اور بے رحم صہیونی حکومت کی حمایت کرنے والی امریکی حکومت کے دباو کے باوجود باوقار طریقے سے مبارزہ کررہے ہیں۔”

امریکی طلباء کو "صحیح سمت میں” اور "مقاومتی بلاک کا حصہ” قرار دینا دو بنیادی جملے ہیں جن کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں بحث ہورہی ہے۔

لبنانی خبررساں ادارے العہد نے شہہ سرخی میں لکھا ہے: امام خامنہ ای کا امریکی طلباء کو خطاب: آپ اس وقت مقاومتی بلاک کا حصہ ہیں۔ العہد نے امریکی طلباء کے نام رہبر معظم کے خط کو مکمل شائع کیا۔

رہبر معظم کا جملہ "آپ تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہیں” کو مغربی ذرائع ابلاغ نے خصوصی اہمیت کے ساتھ نشر کیا۔ بعض نے اس کو شہہ سرخی میں جگہ دی۔ چنانچہ نیویارک ٹائمز اور فوکس نیوز نے رہبر کا خط نشر کرتے ہوئے لکھا "آپ اس وقت تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہیں اور آپ نے اس وقت مقاومتی بلاک کا حصہ تشکیل دیا ہے”۔

فوکس نیوز نے رہبر معظم کا مکمل خط نشر کرتے ہوئے شہہ سرخی میں لکھا کہ "ایران کے سپریم لیڈر نے تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہونے کی وجہ سے امریکی طلباء کی قدردانی کی”

مقاومتی بلاک کا کیا مطلب؟

سرسری نگاہ کرنے سے شاید یہ نکتہ ذہن میں آجائے کہ صہیونی حکومت کی جانب سے نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے امریکی طلباء کو تاریخ کی صحیح سمت میں یا مقاومت کا حصہ قرار دینا سیاسی بیان ہے تاکہ صہیونی حکومت کے مظالم کو برجستہ کیا جائے۔ اگر مسئلہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی اور رہبر معظم کی سیاسی فکر پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کلمات کو انتہائی دقت اور سوچ سمجھ کر استعمال کیا گیا ہے۔

مستضعفین اور مستکبرین کے محاذ کی تشکیل کا معیار

امام خمینی اور رہبر معظم نے کبھی بھی شیعہ طرز فکر یا ایرانی مفادات کے معیار پر محاذ کی تشکیل کا نظریہ پیش نہیں کیا۔ استضعاف اور استکبار دو دقیق کلمات ہیں جو انقلاب اسلامی کے طرز تفکر میں موجود ہیں۔ رہبر معظم انقلاب نے 2019 میں فرمایا کہ آج مستضعفین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہوں اور دوسروں کے ہاتھوں نقصان اٹھاچکے ہوں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ مستضعفین وہ لوگ ہیں جو عالم انسانیت کے مستقبل کے رہنما ہیں اور زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں لہذا مقاومت کی بنیاد معنوی ہے جو جوانوں کی ترقی اور حرکت میں اثر ڈالتی ہے۔

ان دو کلمات کو دین اور قرآن سے امام خمینی نے اخذ کیا ہے اور سیاسی اصطلاح بنادیا ہے۔ مستضعف اس کو کہا جاتا ہے جس کو کمزور سمجھا گیا ہے۔ اس کا ہر حال میں کمزور ہونا ضروری نہیں ہے اسی طرح مستکبرین وہ ہیں جو خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں۔ ہم سب مستضعفین ہیں جن کو طاقتور حکومتوں نے کمزور سمجھا ہے۔ ہمیں نظرانداز کیا گیا ہے۔ ہم اس حالت سے باہر آنا چاہتے ہیں۔ امام خمینی کے لہجوں کا مطالعہ کرنے سے نتیجہ نکلتا ہے کہ امام کے مطابق استضعاف اور استکبار کی پیدائش کی دلیل اخلاقی ہے۔ خدا محوری کے بجائے انسان محوری یعنی ہیومنزم اور خود کو برتر سمجھنے کا تفکر استکبار کی پیدائش کا باعث بنا ہے اسی طرح مستضعفین استعمار کی طرف سے احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی سازشوں اور اپنی ذات سے جہالت کی وجہ سے خود کو دوسروں سے کمزور سمجھتے ہیں۔

دنیا میں موجود تمام برائیاں خواہ حکومتی سطح پر ہوں، خواہ معاشرے کی سطح پر ہوں، خواہ ذاتی ہوں، سب کی جڑ خودبینی ہے جو شیطان سے ورثے میں ملی ہے۔ اگر کوئی گھر کے کونے میں بیٹھ کر عبادت کرے اور خودبینی کا شکار ہوجائے تو شیطان کا وارث ہے۔ اسی طرح حکومتی اور معاشرتی سطح پر موجود برائیوں کی جڑ خودبینی میں پنہاں ہے۔

امریکہ دنیا کے محروم اور مستضعف لوگوں کے صف اول کے دشمن ہے۔ امریکہ دنیا پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی قسم کی جنایت سے گریز نہیں کرتا ہے۔ بین الاقوامی صہیونیزم کے ذریعے تبلیغات کرکے دنیا کے لوگوں کو اپنے اہداف کے لئے استعمال کرتا ہے۔ وہ اپنے گماشتوں اور ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں کا خون چوستا ہے گویا دنیا میں اس کے علاوہ کسی کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔

اس حوالے سے امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگر میں اپنے ماتحت معدود افراد کو معمولی اور بے اہمیت سمجھوں تو میں مستکبر ہوں اور وہ لوگ مستضعفین ہیں۔

فلسطین مستضعفین اور استکبار کے درمیان فرق کا معیار

گذشتہ چند دہائیوں سے فلسطین حق اور باطل کے درمیان جدائی اور فرق کا معیار بن کر سامنے آیا ہے لہذا جو بھی صہیونی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرے یا احتجاج کرے، مقاومت کا حصہ ہے۔ مقاومت ایسا محاذ ہے جس میں شیعہ اور غیرشیعہ، ایرانی اور غیر ایرانی اور مشرقی اور مغربی کا کوئی تصور نہیں ہے۔

فلسطین آج استکبار اور استعمار کے خلاف استقامت اور بہادری کا نمونہ بن گیا ہے۔ فلسطینی مقاومت نے کفر اور استکبار کے مقابلے میں قیام کرکے دنیا کا سیاسی اور ثقافتی نظام بدلنے اہم قدم اٹھایا ہے۔

نتیجہ

رہبر معظم نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنے والے امریکی یونیورسٹی طلباء کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ "میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ آج کے حالات بدلنے والے ہیں۔ مغربی ایشیا کی تقدیر بدل جائے گی۔ عالمی سطح پر ضمیر بیدار ہورہا ہے اور حقائق آشکار ہورہے ہیں۔ مقاومتی محاذ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوا ہے اور تاریخ کا ورق پلٹنے والا ہے۔”

مقاومت اور استکبار کے اس مقابلے میں مختلف اقوام کی بیداری اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر استقامت کرنا مستکبرین کی روش کے برخلاف ہے جو دنیا کی اقوام کے گلے دبا کر جہالت کی دنیا میں رکھنا چاہتے ہیں۔ لہذا فلسطین میں صہیونی حکومت کی نسل کشی اور ناپاک منصوبے کے خلاف امریکی طلباء کی بیداری خوش آئند ہے اور وہ مقاومت کا حصہ ہیں۔ 7 اکتوبر کو عوام کی بیداری اور شجاعت کا ایک نمونہ ظاہر ہوا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button