امامیہ طلباء کا مرکزی کنونشن، نوجوانوں کیلئے مشعل راہ
شیعہ نیوز:پاکستان کے تعلیمی اداروں سے وابستہ امامیہ طلباء کی ملک گیر تنظیم امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہر سال اپنا مرکزی کنونشن نہایت ہی تزک و اہتمام اور پروقار انداز میں منعقد کرتی ہے، عمومی طور پہ یہ کنونشن اکتوبر میں منعقد ہوتا رہا ہے، مگر امسال کرونا کے مسائل کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوئی اور اب یہ کل یعنی 6 تا 8 نومبر منعقد ہو رہا ہے، اس کنونشن کی طلباء اور نوجوانوں کیلئے کیا اہمیت ہے، ملت تشیع اور عالم اسلام کے عنوان سے اس کی کیا افادیت ہے اور یہ کس طرح پاکستان کو توانا، صحت مند، باشعور اور ملک کے ساتھ مخلص مستقبل فراہم کرنے میں کردار ادا کرتا ہے، یہ ایک بہت ہی طویل کہانی ہے، جسے اس کالم میں بیان کرنا شائد ممکن نہ ہو، ہاں ہم مختصر طور پہ یہ عناوین یہاں ذکر کریں گے، تاکہ ہمارے قارئین اور ریکارڈ کی درستگی کیلئے کسی بھی محقق کو اس بارے جان کاری حاصل کرنے میں دشواری نہ ہو۔
ایک بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں اگر ملت تشیع کی کوئی منظم تنظیم یا سازمان ہے تو اسے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہی کہا جاتا ہے۔ یہ کاروان الہیٰ 1972ء سے اس ملت، مکتب اور وطن عزیز کی ترقی و ترویج کیلئے سرگرم عمل ہے، جس کا اولین فوکس وہ طلباء ہیں، جو کالجز، میڈیکل یونیورسٹیز اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں اور لادینی ماحول یا مختلف قسم کے گروہ انہیں اپنی جانب جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں جو نوجوان امامیہ اسٹوڈنٹس کے برادران کیساتھ مربوط ہو جاتا ہے، وہ بلا شبہ بہت سی قباحتوں اور ان گنت معاشرتی برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ تنظیم کا دینی و تربیتی ماحول اسے اس طرح جذب کرتا ہے کہ وہ اپنے مقصد ِخلقت کو جاننے لگتا ہے اور فضولیات سے بچ نکلنے کی سعی کرنے لگتا ہے۔
اس کیلئے تنظیم کے کئی پروگرام اور تنظیمی دینی لٹریچر اور سینیئر برادران اس کی بھرپور رہنمائی کرتے ہیں، جبکہ مختلف عناوین کے تحت ہونے والی تربیتی ورکشاپس، تنظیمی کنونشنز، کانفرنسز اور سیمینارز اس کے ظرف میں وسعت نظر پیدا کرتے ہیں اور ایک چھوٹے شہر یا گائوں سے آیا ہوا نوجوان بھی خود کو ایک وسیع و عریض دنیا کے ساتھ مربوط و منسلک سمجھتے ہوئے اپنی اہمیت و ارزش کا اندازہ لگانے لگتا ہے، تنظیم کے ایسے ہی پروگراموں میں سے یہ ایک سالانہ مرکزی کنونشن ہے، جو گذشتہ اڑتالیس سال سے ریگولر منعقد ہوتا آرہا ہے۔ یہ مرکزی کنونشن جسے "حمایت مظلومین جہاں و آزادی القدس مرکزی کنونشن” کا نام دیا گیا ہے، منعقد ہونے جا رہا ہے۔ مرکزی کنونشن کی افادیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پاکستان کے فرقہ وارانہ، لسانی بنیادوں پر منقسم معاشروں، صوبائی تعصبات میں پلنے بڑھنے والے جوانوں اور قبائلی و دیہی و شہری ایریاز میں زندگی گزارنے والے ملک بھر کے جوانوں کو ایک ہی چھتری تلے ایک ہی نظریہ و سوچ اور ایک ہی فکر و نظر کے تحت جمع دیکھا جا سکتا ہے۔
جو کسی بھی قسم کے باہمی تعصب سے بالاتر سوچ کے حامل ہوتے ہیں، نہ فقط باہمی تعصبات سے بالاتر سوچ رکھتے ہیں بلکہ دنیا بھر کے مظلوم، ستم رسیدہ، پسے ہوئے طبقات کیلئے مثالی جذبوں سے سرشار ہوتے ہیں، دنیا بھر کے ظالمین چاہے ان کا تعلق ان کے اپنے ہی قبیلے سے کیوں نہ ہو، کی مخالفت اور ان کی راہ روکنے اور ان سے نفرین کرنے کے جذبوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ گویا وہ ایک جسم کے مختلف اعضاء کی مانند ہوتے ہیں، جس کے کسی بھی حصے کو درد ہو تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ علامہ محمد اقبال (رہ) نے ایسے جذبے و جذبات کو اپنے افکار و الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔
اخوت اس کو کہتے ہیں چھبے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جوں بیتاب ہو جائے
مرکزی کنونشن ایک ایسا پروگرام ہے، جس میں شرکت سے تنظیم کا خوبصورت اور الہیٰ چہرہ نکھر کر ہر ایک شریک کے سامنے آجاتا ہے اور اس میں شریک ہونے والا اپنے اس تین دن کے اس ماحول میں قیام کو کسی نعمت سے کم نہیں سمجھتا، اس لئے کہ اس کو یہاں سے ایسی روشنی میسر آتی ہے، جس کی کرنیں پھر ہر سو پھیلتی ہیں، یہاں سے جا کر اپنے اپنے علاقوں میں اس پیغام کو عام کرنے میں جت جانا اس کنونشن کا ایک خاصہ کہا جا سکتا ہے۔ مرکزی کنونشن میں چونکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین اور دین شناس علماء شریک ہوکر طلباء کو مختلف موضوعات پر لیکچرز دیتے ہیں اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ طلباء اور نوجوانوں کو ماہرین سے ان کی شعبہ جاتی مہارت کے عنوان سے سوال و جواب کا موقعہ ملتا ہے، اس لئے اس میں اعتماد اور آگے بڑھنے کی جستجو میں یقینا اضافہ ہوتا ہے۔
دنیا بھر کی آزادی و حریت کی تحریکوں میں اس ملت و وطن کے نوجوانوں کی اہمیت سب سے زیادہ اور مہم ہوتی ہے، اگر کسی تحریک میں نوجوان سچے جذبوں، ایثار گری اور اعلیٰ افکار کے ساتھ شریک ہو جائیں اور جدوجہد کیلئے ان میں تحرک و بیداری پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت ایسی تحاریک کو کامیابی سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ہماری ملت کے خلاف بھی پاکستان میں جتنے بھی حربے استعمال کئے گئے، اگر ان کو روکنے میں کامیابی ملی ہے تو اس میں کسی کو شک و تردد نہیں ہونا چاہیئے کہ یہ امامیہ نوجوانوں کی محنتوں کا ثمر ہے، جنہوں نے اپنے بزرگ علماء کے زیر سایہ اپنی جوانیوں کو قربان کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور میدان عمل میں ہمیشہ فرنٹ فٹ پہ دکھائی دیئے ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں کئی ایک سنگ میل کا ذکر کریں تو ان کے طے کرنے میں سب سے اولین یہی نوجوان ہی نظر آتے ہیں، یہ ایک تاریخ ہے کہ اس تنظیم نے بے بہا قربانیوں سے اس مکتب و ملت کو ہر میدان میں سرخرو کیا ہے اور ایسے کنونشن ہی ہیں، جو ایسے نوجوانوں کو پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں، جو پہاڑوں سے ٹکرانے کا جذبہ رکھتے ہوں اور جنہیں اپنی جان کی پروا نہیں ہو، جو امام کے ایسے سپاہی ہوتے ہیں، جن کا عمل ان کے کردار کی گواہی دیتا ہے۔
مکتب تشیع کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو اس کنونشن کی افادیت و اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اس وقت پورے پاکستان میں عالمی سازش گروں اور فتنہ پروروں کی جانب سے مختلف مکاتیب فکر میں فکری مغالطے ایجاد کرکے بہت سے نئے گروہ پیدا کئے جا رہے ہیں، جن کی پشت پناہی عالمی استعمار کر رہا ہے۔ اس کا ذکر ہماری حکومت کے ذمہ داران بھی حالیہ ایام میں کرچکے ہیں، حالیہ دنوں میں اسی تقسیم کرو اور حکومت کرو کے پرانے فارمولے کے تحت ہی کچھ شرپسند و فتنہ پروروں نے ملک کو ایک بار پھر آگ و خون کے گندے کھیل میں جھونکنے کی ناپاک سازش کی، جس کو بے حد دانش مندی سے ناکام بنا دیا گیا۔ یہ سازش ابھی ختم نہیں ہوئی، اس کے پشت پناہ ہر تھوڑے عرصے کے بعد کسی نہ کسی بہانے سے ایسے اقدامات کرتے رہتے ہیں، جن سے ملک اندھیروں میں چلا جائے۔ اس لئے ایسی سازشوں کی گہرائیوں سے آگاہی اور ان کے تدارک کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنے اور ملکی سطح پر پالیسی بنانے کیلئے یہ کنونشن بہت ہی معاون اور ثمر بار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ کنونشن میں ملک بھر کے نمائندہ نوجوان شریک ہونگے، جو اپنے اپنے ایریاز کی صورتحال اور تجربات کو ایک دوسرے سے شیئر کریں گے۔
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
انسان کی جستجو اسے منزل کے قریب کرتی ہے اور جستجو کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے والے اپنی منزل کو پا کر اگلی منزل پہ پڑائو کیلئے بے تاب ہو کر اپنی پرواز کو مزید بلند کرنے کی سعی کرنے لگتے ہیں۔ امامیہ طلباء ایسے ہی نوجوانوں کا ملک گیر منظم و مربوط نیٹ ورک ہے، جو اپنی منزل کے حصول کیلئے گذشتہ اڑتالیس برسوں سے مسلسل جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ امسال مرکزی کنونشن حمایت مظلومین جہاں اور آزادیء القدس کے عنوان سے ہو رہا ہے تو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ یہ وقت کی آواز ہے، اس وقت امت مسلمہ کو دیکھا جائے تو اس پر ہر سو حملہ آور استعمار اور اس کے گماشتے اپنا پورا زور لگا رہے ہیں کہ اس کی وحدت، اس کی اجتماعیت اور اس کا کردار محدود ہو جائے اور اسلامی سلطنتیں ان کے زیر کنٹرول ہوں، جبکہ امت مسلمہ کا سلگتا ہوا مسئلہ اگر دیکھا جائے تو القدس اور فلسطین کا مسئلہ ہے، جسے صیہونیوں نے ہڑپ کرنے کے منصوبے بنا رکھے ہیں اور اس کے ہاتھ پر نام نہاد عرب و مسلم حکمران بیعت کر رہے ہیں۔ ان کی سرنگونی امت فلسطین کے ساتھ کھلی غداری ہے، مگر کسی کو شرم نہیں آ رہی اور نہ کوئی ان مظلوموں کی آواز سن رہا ہے، جو ہم سب کو صبح و شام پکار رہے ہیں۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر