
پاکستان میں COVID19، زائرین کو قربانی کا بکرا بنانے کی سیاست، اہم حقائق پر مشتمل رپورٹ
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) کرونا وائرس کی وبا سے متاثرہ ایران سے پاکستانی زائرین کی واپسی پر حکومتی رہنماؤں کے ناقص / حقائق کے منافی بیانات نے ملک میں محاذ آرائی کی صورتحال پیدا کی اور مسلکی ہم آہنگی کو متاثر کیا یہ بات اسلام آباد پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے اپنی جاری ایک رپورٹ میں کہی ہے جس کا عنوان ‘پاکستان میں کووڈ19: زائرین کو قربانی کا بکرا بنانے کی سیاست’ ہے.
ایران میں کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے پر سات ہزار پاکستانی زائرین کی واپسی پر ملک میں ایک نئی بحث نے جنم لیا تھا اس رپورٹ میں زائرین کی واپسی پر تفتان بارڈر پر دیکھ بھال, نعد ازاں اپنے صوبوں کو روانگی, سیاسی بیانات اور صحافتی بیانیئے کا جائزہ لیا گیا ہے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ سجاد بخاری کہتے ہیں کہ نئی عالمی وبا کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اپنی جگہ درست ہیں لیکن ملک میں جاری سیاسی انفراق و مسلکی تعصب کے باعث اس معاملے کو لے کر محاذ آرائی کی صورتحال پیدا کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے زائرین کے معاملے پر بیانات غیر ذمہ دارانہ تھے جس کے مختلف مسالک پر مشتمل معاشرے پر اثرات مرتب ہونا تھے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے تسلسل کے ساتھ کوشش کی کہ تفتان بارڈر پر بدانتظامی کو دور افتادہ سحرائی علاقہ قرار دے کر بچا جاسکے جبکہ یہ پاکستان و ایران کے درمیان ایک مستقبل سرحدی گزرگاہ ہے جس کے زریعے ہر سال تین لاکھ افراد دونوں ممالک میں آتے جاتے ہیںرپورٹ میں عالمی ادارہ صحت کی 2016 کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی سرحدی گزرگاہوں پر صحت کے خطرات کو جاننے اور ان سے اپنی آبادی کو بچانے کے ناکافی انتظامات ہیں۔
آئی پی آئی رپورٹ کہتی ہے کہ 23 فروری کو جلد بازی میں بارڈر بند کرنا اور اس کے بعد 28 فروری کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کے نتیجے میں زائرین کی بڑی تعداد تفتان پہنچ گئی اس ایک غلط فیصلے نے ملک میں الفاظی تکرار اور الزامات کو جنم دیا کہ بارڈر کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ سیاسی دباؤ اور مسلکی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ تفتان بارڈر پر ایران اور پاکستان دونوں طرف زائرین کی آمد اور داخلے کے حوالے سے ہم آہنگی کا فقدان تھا جسے یوں پیش کیا گیا کہ ایران نے زائرین کو بارڈر پر لا کھڑا کیا تھا یا زبردستی پاکستان بجھوایارپورٹ کے مطابق زائرین خود سے چودہ سو کلومیٹر سفر کرکے پاکستان بارڈر پر پہنچے اور ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ایران نے زائرین کو جبری طور پر تفتان پر لا کھڑا کیا ہو اس بحرانی صورتحال میں پاکستان اور ایران کے درمیان تعاون کی مثالیں بھی سامنے آئیں جیسا کہ تہران نے اسلام آباد کی درخواست پر پاکستانی زائرین کو ویزوں کا اجراء معطل کردیا اور بعد ازاں پاکستان ایمبیسی کے ساتھ مل کر ایران میں رہ جانے والے زائرین کو رہائش و دیگر سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے 22 مارچ کو بارڈر پر انتظامات کو مربوط بنانے پر بات چیت کی جو اگرچہ اس بحران کی شدت کے گزر جانے کے بعد کا وقت تھا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبوں میں قائم قرنطینہ سینٹرز میں 6834 زائرین کے کرونا وائرس ٹیسٹ لئے گئے جن میں سے 1331 کے نتائج مثبت آئےکرونا وائرس میں مبتلا ایران سے واپس آنے والے زائرین میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 701, سندھ 280, بلوچستان 141, خیبر پختون خواہ 68, گلگت بلتستان 139, اور آزاد کشمیر سے دو افراد شامل تھے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تفتان بارڈر پر زائرین کے کرونا وائرس ٹیسٹ نہیں لئے گئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تفتان قرنطینہ میں زائرین کو ایک ساتھ رکھنے کے باعث ان میں وبائی مرض کی شرح زیادہ رہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زائرین کم از کم 28 دن تک قرنطینہ میں رہے اور انہیں کرونا وائرس ٹیسٹ منفی آنے سے پہلے گھروں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ وبا زائرین سے مقامی سطح پر منتقل نہیں ہوئی ہے۔