انٹرویو

تحریک حسینی کے تحت درجنوں پراجیکٹس چل رہے ہیں جن سے عوام بلاتفریق مستفید ہورہے ہیں، علامہ معین الحسینی

نمائندہ سوشل میڈیا : بعض لوگ تحریک اور انجمن سے مایوس نظر آرہے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ انکی کارکردگی زیرو ہے، آپ کیا جواب دیں گے؟
سید معین الحسینی: کسی ادارے یا تنظیم کے پاس جاکر ہی اسکی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دور سے کوئی بھی اندازہ نہیں لگاسکتا۔ تحریک حسینی کے پلیٹ فارم سے 1100 شہداء کے بچوں اور یتمیوں کے ساتھ ماہانہ کمک ہوتی ہے۔ 80 قرآن سینٹرز فعال ہیں۔ غرباء پیکیج کے عنواں سے مختلف اوقات میں فقراء کی ساتھ اشیاء ضروریہ کی شکل میں تعاون کیا جاتا ہے۔ اجتماعی شادیوں کی صورت میں تعاون کیا جاتا ہے۔ حکومتی اور عدالتی سطح پر روزانہ مظلوموں اور محروموں کے ساتھ جاکر عملی کمک کی جاتی ہے، روزانہ کی بنیاد پر آپس کے تنازعات حل کرائے جاتے ہیں اور اسی طرح بہت سے امور تحریک حسینی کے پلیٹ فارم سے حل ہوتے ہیں۔

نمائندہ سوشل میڈیا: ضلع کرم میں اکثر قبائلی تنازعات ہوتے رہتے ہیں، اطلاعات ہیں کہ زمینی تنازعات کے خاتمے کے لئے اعلی سطحی کمیشن تشکیل دیا جاچکا ہے، اس سسٹم سے کوئی امید ہے؟
سید معین الحسینی: کمیشن اگر سابقہ ریکارڈ کے مطابق اپنا پروگرام جاری رکھے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوں، تاہم اگر وہ اس سے ہٹ کر نیا ریکارڈ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو مشکلات حل نہیں بلکہ یہ کمیشن مزید مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔

نمائندہ سوشل میڈیا: زمینی تنازعات لئے عموما حکومتی مشینری کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، اسکے پیچھے کیا فلسفہ کارفرما ہے؟
سید معین الحسینی: سب پر یہ واضح ہے کہ کرم میں زیادہ تر لڑائی جھگڑے زمینی تنازعات کے باعث پیش آتے ہیں، قبائلی تنازعات جس نوعیت کے بھی ہوں حکومت کا فرض منصبی ہوتا ہے کہ اس کی بروقت روک تھام کرلے جبکہ یہاں ہماری انتظامیہ بروقت تو کیا وقت کے بعد بھی حرکت میں نہیں آتی، جس کی وجہ سے مسائل حل ہونے اور سلجھ جانے کی بجائے مزید الجھ جاتے ہیں جبکہ زمینی تنازعات کے حل کیلئے اگر حکومت 20 فیصد بھی اپنا فرض پورا کرلے تو مسائل نہ ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں رہے گی۔

نمائندہ سوشل میڈیا: چند ہفتے قبل بوشہرہ میں دو قبائل کے مابین لڑائی چھڑ گئی تھی، جس کے بعد حالات کافی کشیدہ ہوگئے تھے، اصل مسئلہ کیا تھا؟
سید معین الحسینی: بوشہرہ کے ایک سنی بنگش اور ڈنڈر کے ایک شیعہ طوری قبیلے کے مابین شاملات کے مسئلے پر عرصہ چند سال سے کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس دوران کئی مرتبہ جھڑپیں بھی واقع ہوئی ہیں۔ جس میں کئی افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ مگر مسئلے کو بروقت حل نہ کرنے کی وجہ سے یہ کشیدگی مزید خطرناک صورت اختیار کررہی ہے۔ حالیہ مسئلہ شاملات میں آبادکاری پر پیش آیا۔ سال دو سال پہلے اہل سنت کے بنگش قبائل نے شاملات میں آبادکاری شروع کی۔ خصوصاً شاملات میں بنے ٹیوب ویل کی سولرائزیشن پر مسئلہ پیدا ہوا۔ مخالف طوری قبائل نے جاکر ڈی پی او سے شکایت کی۔ مگر ڈی پی او کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر کچھ روز بعد انہوں نے بھی کام شروع کیا بلکہ دو کمرے بنائے۔ جس پر اگلے روز سنی بنگش قبائل نے حملہ کرکے جنگ چھیڑ دی، پورا دن جنگ جاری رہی، تاہم تنظیموں کی مداخلت سے جنگ بند ہوگئی۔ اس کے کافی عرصہ بعد گزشتہ دنوں جب سولرائزیشن پر دوبارہ کام شروع ہوا تو ڈنڈر کے طوری قبائل نے دوبارہ ذمہ دار اداروں سے مداخلت کی درخواست کی۔ مگر متعقلہ اداروں نے پتہ نہیں کس حکمت عملی کے تحت مداخلت سے گریز کیا تو اگلے ہی روز انہوں نے دو سال قبل بنائے ہوئے اپنے متنازعہ کمروں کے اردگرد چاردیواری بناکر راتوں رات بسایا اور حسب عادت بوشہرہ کے بنگش قبائل نے صبح سویرے محاصرہ کرکے ان پر حملہ کیا۔

نمائندہ سوشل میڈیا: کہا جاتا ہے کہ پورے کرم کے شیعہ طوری بنگش قبائل نے اہلیان بوشہرہ محاصرہ کیا، ان پر حملہ کرکے بھاری ہتھیار استعمال کئے، اس کی کیا حقیقت ہے؟
سید معین الحسینی: نہیں بلکہ معاملہ برعکس ہے۔ حملہ ڈنڈر پر ہوا۔ ڈنڈر بہت ہی مختصر آبادی ہے۔ ڈنڈر کے ساتھ شاملات کا معاملہ تھا۔ انہیں چاہیئے تھا کہ جنگ انہی تک محدود رکھتے مگر انہوں نے اردگرد پوری شیعہ آبادی کو ٹارگٹ کیا۔ حتیٰ ضلع ہیڈ کوارٹر پاراچنار پر بھی میزائل اور مارٹر سے حملہ کیا۔ جہاں ایک اسکول پر گولے لگنے سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ متحارب دھڑوں کو جنگ بھڑکانے کی بجائے اپنی حد تک محدود رکھنا چاہیئے۔ خصوصاً ثالثان اور جرگے کا خیال رکھنا چاہیئے۔ مگر ہوا یوں کہ جو مصالحتی جرگہ حکومت کی سرپرستی میں جارہا تھا اسے بھی نشانہ بنایا گیا۔ جس میں طوری قوم کے انجمن حسینیہ کے ڈپٹی سیکریٹری منیر آغا سمیت فوجی عہدیدار بھی شامل تھے۔ تاہم حملے میں وہ بال بال بچ گئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button