اہم پاکستانی خبریںہفتہ کی اہم خبریں

پاک ـ افغان سرحد پر شدید جھڑپيں، 19 پاکستانی فوجی شہید، 15 طالبان واصل جہنم

غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے کابل میں افغان ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر شدید جھڑپوں میں پاکستان کے 19 فوجی مارے گئے ہیں جبکہ پاکستانی ذرائع کا کہنا ہے کہ "خوارج" (یعنی ٹی ٹی پی) کی افغان طالبان کی پوسٹوں کے ذریعے پاکستان میں دراندازی کی کوشش ناکام بنائی گئی اور 15 سے زائد "خوارج" اور افغان طالبان مارے گئے

شیعہ نیوز: ترکیہ کی آنادولو خبر ایجنسی نے افغان ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ افغانستان کے صوبوں خوست اور پکتیا کی سرحد پر پاکستانی فورسز اور افغان طالبان فورسز کے درمیان شدید مسلحانہ جھڑپوں میں 19 پاکستانی فوجی جان بحق ہوگئے ہیں۔

افغان ذرائع کا دعوی ہے کہ افغان طالبان فورسز نے صوبہ خوست کے ضلع علی شیر کی سرحد پر کئی پاکستانی چوکیوں کو آگ لگا کر جلا دیا ہے اور صوبہ پکتیا کے ضلع ڈنڈ پٹان کی سرحد پر پاکستانی فوج کی دو چوکیوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاراچنار میں لوگ فاقہ کشی پر مجبور، امن قائم نہ ہو سکا

ان رپورٹوں میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ان جھڑپوں میں 19 پاکستانی فوجی جان سے گئے ہيں اور تین افغان شہری پاکستانی فورسز کے مارٹر حملوں میں جان بحق ہو گئے ہیں۔

مذکورہ جھڑپوں کے بارے میں پاکستانی ذرائع کی رپورٹ

"پاکستان اخبار جنگ نے پاکستانی ذرائع کے حوالے سے لکھا: "خوارج” کی افغان طالبان کی پوسٹوں کے ذریعے پاکستان میں دراندازی کی کوشش ناکام،

فتنہ الخوارج کی افغان طالبان کی پوسٹوں کا استعمال کر کے پاکستان میں دراندازی کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق 20 سے 25 خوارجیوں نے کل صبح کرم اور شمالی وزیرستان سے دراندازی کی کوشش کی۔

سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں فتنہ الخوارج کی دراندازی کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔

خوارج اور افغان طالبان نے مل کر پاکستانی چوکیوں پر بلا اشتعال بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی جس کا سیکیورٹی فورسز نے منہ توڑ جواب دیا ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق افغانستان کی طرف بھاری نقصانات کی مصدقہ ابتدائی اطلاعات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گرینڈ امن جرگہ کُرم میں قبائل کے درمیان امن معاہدہ کرانے میں ناکام

مؤثر جوابی کارروائی کے نتیجے میں 15 سے زیادہ خوارج اور افغان طالبان کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کی مصدقہ اطلاعات بھی ملی ہیں۔

علاوہ ازیں مؤثر جوابی کارروائی اور گولہ باری سے افغان طالبان 6 چوکیاں چھوڑ کر بھاگ گئے، افغانستان کی طرف نقصانات مزید بڑھنے کی بھی اطلاعات ہیں جبکہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا صرف 3 زخمیوں کی اطلاع ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان نے افغانستان کی عبوری حکومت سے فتنہ الخوارج کو اپنی سر زمین نہ استعمال کرنے کے لیے بارہا کہا ہے”۔

افغانستان پر پاکستانی طیاروں کی بمباری

واضح رہے کہ پاکستان کے جنگی طیاروں نے مورخہ 24 دسمبر کو افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے بعض بعض سرحدی علاقوں پر بمباری کی تھی اور پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ ان بمباریوں کا نشانہ پاکستانی طالبان (TTP اور پاکستانی اصطلاح کے مطابق خوارج) کے خفیہ ٹھکانے تھے؛ جبکہ افغان طالبان کا دعوی تھا کہ پاکستان نے عام اور نہتے افغان شہریوں کو نشانہ بنایا ہے اور ان حملوں میں 46 افراد جان بحق ہوگئے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔

ادھر افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UN Assistance Mission in Afghanistan [UNAMA]) نے بھی اعلان کیا ہے کہ اس حملے میں درجنوں عام شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے ان پاکستانی حملوں پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یہ پاکستانی کاروائی بین الاقوامی معیاروں کے خلاف تھی اور "یہ حرکتیں کسی صورت میں بھی بلا جواب نہیں رہیں گی”۔

پاکستان میں دہشت گردی

پاکستان کو شدید دہشت گردی کا سامنا ہے، زیادہ تر دہشت گرد کاروائیآں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں انجام پاتی ہیں، جن میں پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبے شامل ہیں جو افغان صوبوں کنڑ، پکتیا خوست اور پکتیکا کے پڑوسی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ پر سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا رد عمل

پاکستان میں لڑنے والی شدت پسند تنظیموں میں ٹی ٹی پی مذہبی محرکات کی بنا پر حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہے اور وہ پاکستانی حکومت کو غیر شرعی سمجھتی ہے جبکہ حکومت پاکستان انہیں خوارج کا نام دیتی ہے جبکہ بلوچستان میں کچھ سیکولر بلوچ تحریکیں اپنے بقول اس صوبے کی خودمختاری کے لئے دہشت گردی کا سہارا لیتی ہيں اور بعض قلم کاروں کے درمیان ان دو دہشت گرد دھڑوں میں تعاون بھی پایا جاتا ہے۔ ان دونوں جماعتوں نے متعدد بار پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کو بارہا دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔ گوکہ کرم ایجنسی میں ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی ریاست کوئی اقدام نہیں کرتی لیکن اگر وہ فوجیوں اور سیکورٹی اداروں کے خلاف کاروائی کریں تو انہیں خوارج کہا جاتا ہے اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جاتا ہے۔

بہرحال پاکستان کو اس وقت دہشت گردی کا سامنا ہے جس کی وجہ غیر مستحکم مرکزی حکومت بھی ہے اور دوسری خاص بات یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ جنگ میں روایتی فوجیں تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا شکار ہوجاتی ہيں اور ان سے نمٹنے کے لئے عام طور مزاحمتی سیلز کا سہارا لیا جاتا ہے۔

حالیہ برسوں سے افغان سرحدوں سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں میں دہشت گردانہ کاروائیاں مسلسل جاری ہیں جن سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی ادارے صرف جنگی کاروائیوں کا سہارا لیتی ہیں یا پھر کبھی دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مذاکرات بھی کر لیتی ہے اور یوں ان گروپوں کو سماجی اور سیاسی میدانوں میں تقویت ملتی ہے۔

بہرحال اسلام آباد سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی ـ جو زیادہ تر صوبہ خیبر پختونخوا میں سرگرم عمل ہے ـ کا اصل ٹھکانہ افغانستان ہے اور اس ٹولے سے وابستہ دہشت گرد افغانستان سے ہی اپنی کاروائیوں کو منظم کرتے ہیں۔ لیکن افغانستان کی طالبان حکومت ان دعوؤں کو رد کرتی ہے۔ اور یوں دو ملکوں کے باہمی روابط مسلسل ابتری کی طرف جا رہے ہیں اور خطے کے عام شہری ـ خواہ وہ پاکستان میں ہوں خواہ افغانستان میں ـ ان اختلافات سے پیدا ہونے والی انسانی اور سیکورٹی صورت حال سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button