مضامین

امریکی طاقت کے زوال کی پانچ اہم علامات

تحریر: علی احمدی

گذشتہ چند سالوں سے امریکہ اور دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور محققین اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ امریکہ جیوپولیٹیکل، فوجی، اقتصادی، مالی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے زوال پذیر ہو رہا ہے۔ اکثر ماہرین کی نظر میں امریکہ اب مزید وہ بلا مقابلہ سپر پاور نہیں رہا جو سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد تھا۔ ان کا خیال ہے کہ ہر سال امریکہ کی طاقت میں مزید کمی اور زوال آتا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف خود امریکی ماہرین اور عوام بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2021ء میں ایک سروے انجام پایا تھا جس میں 1019 امریکی شہریوں نے شرکت کی تھی۔ سروے میں شریک 79 فیصد امریکی شہریوں نے کہا تھا کہ وہ امریکہ کو ٹوٹتا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ امریکی طاقت کے زوال کی چند اہم علامات ہیں جو ذیل میں بیان کی گئی ہیں۔

1۔ فوجی طاقت کا زوال
2019ء میں "نیشنل ڈیفنس اسٹریٹجی کمیشن” نامی امریکی تحقیقاتی ادارے نے 98 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا: "امریکہ کی دیرینہ فوجی برتری ختم ہو چکی ہے اور اس کا اسٹریٹجک ایرر انڈکس خطرناک حد تک اوپر جا چکا ہے۔ دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں امریکی طاقت نیز عالمی معاہدوں کی پاسداری کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں۔” اس رپورٹ میں "سیاسی عدم افادیت” اور "بجٹ کی محدودیت” دو ایسے اسباب بیان کئے گئے ہیں جو درپیش سکیورٹی خطرات کا مقابلہ کرنے میں امریکی حکومت کی کمزوری کا باعث بنے ہیں۔ اسی طرح افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد انجام پانے والے ایک سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی فوج پر امریکی عوام کا اعتماد کم ترین سطح پر جا پہنچا ہے۔

2)۔ سماجی مشکلات
کچھ عرصہ قبل معروف امریکی مجلے اٹلینٹک میگزین نے ملک کی اندرونی مشکلات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا کہ دنیا کی واحد سپر پاور ان دنوں ایک "شکست خوردہ حکومت” میں تبدیل ہو چکی ہے۔ میگزین نے لکھا کہ امریکہ کی دیرینہ طاقت اور اثرورسوخ سماجی افراتفری، سیاسی حاکمیت ختم ہو جانے اور کرونا وبا کا موثر انداز میں مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے شدید تزلزل اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ یاد رہے کرونا وائرس کے باعث ہلاک شدہ افراد کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ دنیا کے تمام ممالک میں سرفہرست تھا۔ کرونا وبا نے امریکی عوام کو درپیش دیرینہ مشکلات کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ دولت کی تقسیم میں شدید امتیازی رویے ایسے ہیں کہ امریکی معاشرے کے 1 فیصد پر مشتمل دولت مند طبقے کے پاس پورے ملک کی دولت کا 50 فیصد حصہ جمع ہو چکا ہے۔

امریکہ کے سیاسی میدان میں کالے دھن کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کالے دھن کے ذریعے لابی گری کی جاتی ہے، پیسے کے ذریعے ووٹ خریدے جاتے ہیں اور میڈیا پر اپنی مرضی کی مہم چلائی جاتی ہے۔ دوسری طرف امریکی معاشرے میں حکومتی سطح پر منظم نسل پرستی پائی جاتی ہے۔ وقتاً فوقتاً امریکہ کی شدید متصعب پولیس کی جانب سے سیاہ فام شہریوں کے خلاف بربریت اور ظلم و ستم پر مبنی واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح امریکی سیاست شدید حد تک بائی پولر ہو چکی ہے اور پورا ملک دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ اسٹنفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ تحقیقاتی ادارے فری مین اسپوگلی کے اعلی سطحی ماہر فرانسس فوکویاما مجلہ اکانومسٹ میں اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ امریکی طاقت کے زوال کا اصلی ترین سبب اس کے اندرونی مسائل اور مشکلات ہیں۔

3)۔ بجٹ کی کمی
بجٹ میں کمی ہر طاقت کے زوال کا سبب بن سکتی ہے۔ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت 2021ء کے مالی سال میں بجٹ میں 2.8 ٹریلین ڈالر خسارے کا شکار تھی۔ امریکی کانگریس کا بجٹ کا دفتر ایک قانون ساز تحقیقاتی ادارہ ہے جس نے گذشتہ برس پیشن گوئی کی تھی کہ آئندہ چند ماہ میں امریکہ کے بجٹ میں خسارہ 3 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچے گا۔
4)۔ اقتصادی مشکلات
1960ء میں پوری دنیا کی جی ڈی پی میں امریکہ کا حصہ تقریباً 50 فیصد تھا۔ اس وقت بھی یہ عدد کمی کی جانب گامزن تھا اور 2021ء میں کم ہوتے ہوتے 24.4 فیصد تک رہ گیا۔ بلومبرگ ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق 1960ء میں دنیا کی اقتصاد میں امریکہ کا حصہ 40 فیصد تھا لیکن 2014ء میں یہ حصہ صرف 14 فیصد رہ گیا۔

5)۔ نرم طاقت کا زوال
نرم طاقت ابتدا سے ہی امریکی طاقت کے بنیادی اراکین میں سے ایک تھی جو امریکی پالیسیوں کے جائز ہونے اور بنیادی اقدار پر مشتمل تھی۔ گذشتہ کچھ عرصے سے امریکہ کی نرم طاقت بھی زوال پذیر ہوئی ہے اور گذشتہ چند سالوں میں اس زوال میں تیزی آئی ہے۔ معروفی امریکی محقق جوزف نائی نرم جنگ کے ماہر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس وقت امریکہ کی نرم طاقت میں زوال کی پیشن گوئی کر دی تھی جب 2003ء میں صدر جرج بش کی سربراہی میں امریکی حکومت نے عراق پر فوجی حملہ کیا تھا۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں نے امریکہ کا حقیقی چہرہ عیاں کر دیا اور جمہوریت، انسانی حقوق، آزاد دنیا، آزادی اظہار اور دیگر ایسی بہت سی اقدار سے متعلق امریکہ کا دوغلاپن واضح کر دیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button