آدھا ہمارا، آدھا تمہارا - (تحریر رعایت اللہ فاروقی)
یہ تصور بھی نہ کیجئے کہ ان ٹینکوں کو مزاحمت دینے کی ذمہ داری جولانی اور اس کی ایچ ٹی ایس کی تھی یا ہے۔ مزاحمت دشمن کو دی جاتی ہے، اسرائیل جولانی کا دشمن نہیں سرپرست ہے
شیعہ نیوز: دو ہفتے ہونے کو ہیں جب ہم نے واضح طور پر لکھا کہ اسرائیل کی یقینی شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے ترکی نے اپنی خدمات فراہم کردی ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور ترکی شام پر دہشت گردی کی یلغار کی صورت اس ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ہماری اس بات کا ان مذہبی جنونیوں کی جانب سے مذاق اڑایا گیا جن میں سے کچھ خود کو جماعتیے باور کراتے ہیں تو ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے جو ہمارے ہی دیوبندی مسلک میں فرقہ واریت کی دکان رکھتے ہیں۔ دہشت گردوں نے جس دمشق تک پہنچنے میں دس دن لگائے تھے۔ اسی دمشق تک اسرائیل کے ٹینک صرف 48 گھنٹے میں پہنچ چکے ہیں۔
دہشت گردوں کو مزاحمت بشار نے دینی تھی جو اس نے نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیلی ٹینکوں کو مزاحمت دینا کس کی ذمہ داری تھی ؟ یہ تصور بھی نہ کیجئے کہ ان ٹینکوں کو مزاحمت دینے کی ذمہ داری جولانی اور اس کی ایچ ٹی ایس کی تھی یا ہے۔ مزاحمت دشمن کو دی جاتی ہے، اسرائیل جولانی کا دشمن نہیں سرپرست ہے۔ وہ کیوں دینے لگا مزاحمت؟ صرف یہی نہیں کہ اسرائیل کے ٹینک دمشق کے تقریبا دروازے پر ہیں۔ بلکہ یہی اسرائیل دمشق میں جولانی کے جلوہ افروز ہوتے ہی اس مشن پر لگ گیا ہے کہ شام کی کوئی ایک بھی دفاعی تنصیب محفوظ نہ رہے۔
یہ بھی پڑھیں: شام میں لائے جانے والے ’’انقلاب‘‘ کی حقیقت بے نقاب
شام کی نیوی، فضائیہ، اور بری فوج کی تمام تنصیبات تباہ کی جا رہی ہیں۔ اور جولانی کیا ترکی کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہ ہے وہ تماشا جس کی نوید دیتے ہوئے تین دن سے ہمارے مذہبی جنونی سوشل میڈیا پر “شام میں صبح” کا ٹرینڈ چلا رہے تھے۔ شام کی اس صورتحال کے بہت سے پہلو ہیں۔ ہر پہلو اپنے حصے کا مستقل کالم چاہتا ہے۔ اور ہم لکھیں گے انشاءاللہ۔ زیر نظر کالم میں ہم اپنے ہاں کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس سوال کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ ہمارا نوجوان سوچے سمجھے بغیر اس حد تک کیوں چلا جاتا ہے کہ نیتن یاہو کے مشن کی تکمیل کو بھی “صبح” سے تعبیر کرنے لگتا ہے؟
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب امریکہ کسی مسلم ملک کو تباہ کرنے کے لئے ہتھیار اور فنڈز فراہم کرکے دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے تو ہمارا مذہبی نوجوان اس مدد کو “نصرت خداوندی” ماننے اور ثابت کرنے پر تل جاتا ہے؟ برصغیر پاک و ہند ہی نہیں بلکہ عرب دنیا میں بھی اس کی بنیاد ان نام نہاد مذہبی سکالروں نے ڈالی ہے جن کے لٹریچر نے “خلافت” کا رومانس پیدا کیا ہے۔ انہیں تو اپنی کتابیں بیچنے اور چندوں سے غرض تھی سو پوری کرلی۔ لیکن نتیجے میں عالم عرب اور برصغیر پاک و ہند دونوں ہی جگہ اب ایک بعد دوسری نسل ان کی آرہی ہے جو ہر اس گدھے کو صلاح الدین ایوبی مان لیتی ہے، جو پریس کانفرنس کے لئے ایک عدد پگڑی اور پہلو میں سجی کلاشنکوف کا اہتمام کرلے۔
بس جو بھی یہ کرلے وہ عالم عرب میں صلاح الدین ایوبی ہوجاتا ہے اور پاک و ہند میں محمد بن قاسم۔ ہمارا یہ نوجوان عقل سے اتنا فارغ ہے کہ یہ تک نہیں جانتا کہ جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں ، یہ تو کبھی ایک دن کے لئے بھی کسی خلافت کے زیر نگیں نہیں رہا۔ افغانستان میں پر بارہ سو سال سے مسلمان حکومت کر رہے ہیں۔ اور وہ کسی بھی اموی، عباسی یا عثمانی خلیفہ کے تحت نہیں رہے۔ برصغیر پر مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی ہے۔ اور کبھی بھی عملا کسی خلافت کے تحت نہیں رہے۔ گویا خلافت اس خطے کے سرے سے ڈی این اے میں ہی نہیں ہے۔
ہلاکو خان تک جب یہ آفر پہنچی تو اس نے اس مسرت کے ساتھ اسے قبول کیا کہ ہندوستان کے ساتھ جڑی اپنی سرحدوں کے کمانڈر کو درج ذیل حکم نامہ بھیجا “اگر کوئی منگول گھوڑا غلطی سے بھی سلطان ناصر الدین شاہ کی سلطنت کی حدود میں قدم رکھ دے تو تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اس گھوڑے کی چاروں ٹانگیں کاٹ ڈالو”۔ ہلاکو خان کے ابا حضور کو بھی اندازہ نہ تھا کہ بلبن کرنے کیا جا رہا ہے۔ یہ بلبن ہی تھا جس نے فوری طور پر نئے قلعے، اسلحے کے کارخانے، گھوڑوں کی افزائش کے لاتعداد مراکز ہی تعمیر نہ کروائے بلکہ اس زمانے کے حساب سے ملٹری انٹیلی جنس کا ایک نہایت فعال اور ماڈرن ادارہ کھڑا کیا۔ اور اس کے جاسوس منگول سلطنت میں پھیلا دئے جو لگاتار رپورٹیں بھیجتے۔