مضامینمقالہ جات

کیا چین اور امریکہ میں راہداریوں کی جنگ شروع ہو چکی ہے؟

جب بائیڈن حکومت نے اعلان کیا کہ وہ مغربی ایشیا میں انتہائی وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اسی سلسلے میں جی 20 کی سربراہی کانفرنس میں "عالمی انفرااسٹرکچر اور سرمایہ کاری میں شراکت” یا PGII نامی پراجیکٹ پیش کیا تو دنیا کے مختلف حصوں میں موجود بعض سیاسی اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال تھا کہ جو بائیڈن حکومت کی جانب سے اس منصوبے کی پیشکش کا مطلب یہ ہے کہ چین کی جانب سے سلک روڈ کو زندہ کرنے کیلئے گذشتہ چند عشروں سے مشرق وسطی میں جاری "ون بیلٹ ون روڈ” منصوبہ مشکلات کا شکار ہو جائے گا اور اس کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں جنم لیں گی۔ امریکہ کی جانب سے گذشتہ چند عشروں کے دوران اس چینی منصوبے کو متاثر کرنے کیلئے انجام پانے والی کوششوں اور اقدامات کے تناظر میں بھی یہی دکھائی دیتا ہے کہ امریکی منصوبہ چین کو مشکلات سے روبرو کر دے گا۔

جی 20 سربراہی اجلاس، جو چین اور روس کے صدور مملکت کے بغیر منعقد ہوا، نے امریکہ اور انڈیا کو اپنے اس نئے منصوبے کا پراپیگنڈہ کرنے کا بہترین موقع فراہم کر دیا۔ یہ منصوبہ انڈیا کو خطے کے عرب ممالک اور یورپ تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ امریکہ اور انڈیا کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ہمراہ اس نئی راہداری کی تشکیل میں باہمی تعاون پر زور دیے جانے کے نتیجے میں بعض ذرائع ابلاغ نے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں نئے مرحلے کو "راہداریوں کی جنگ” کا عنوان دیا ہے۔ لیکن امریکہ کے اس منصوبے کی تفصیلات کا جائزہ لینے نیز چین کی جانب سے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر طویل عرصے سے جاری سرمایہ کاری پر توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال امریکہ اور انڈیا کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں بہت سی شاید اور اگر موجود ہیں۔ خطے میں جیوپولیٹیکل تبدیلی اور تبدیل ہوتا ورلڈ آرڈر یقیناً اس منصوبے پر گہرے اثرات ڈالے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا – مشرق وسطی – یورپ راہداری کی تشکیل میں بنیادی رکاوٹیں کیا ہیں؟ ہم ذیل میں چند رکاوٹوں کا جائزہ لیتے ہیں:

1)۔ اہم ممالک کو اس منصوبے میں شامل نہ کرنا

انڈیا کو یورپی منڈی سے ملانے پر مشتمل اس امریکی منصوبے کی سب سے بڑی کمزوری خطے کے اہم ممالک کو اس میں شامل نہ کرنا ہے۔ امریکہ کا یہ منصوبہ اقتصادی نوعیت سے زیادہ "سیاسی” نوعیت کا ہے جس کا مقصد چین کے مقابلے میں انڈیا کی معیشت کو فروغ دینا ہے۔ دوسری طرف یورپ کیلئے مختصر ترین راستہ ایران ہے جبکہ اس سے چشم پوشی کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان اور حتی پاکستان، عراق اور ترکی کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ یوں تجارتی اشیاء کئی گنا زیادہ اخراجات سے یورپ پہنچیں گی۔ اسی طرح مقبوضہ فلسطین کو بھی اس راہداری میں شامل کیا گیا ہے جو شدید ترین سکیورٹی اور سیاسی بحرانوں کا شکار ہے۔

2)۔ خطے میں امریکی سرمایہ کاری کا واضح نہ ہونا

جب جو بائیڈن نے اس منصوبے کا سرکاری طور پر اعلان کیا تو یہ دعوی کیا کہ اس کے نتیجے میں مشرق وسطی دنیا کا ترقی یافتہ ترین اور امیر ترین خطہ بن جائے گا۔ امریکی صدر نے اتنے زور و شور سے اس منصوبے کے اچھے نتائج بیان کئے کہ بعض مغربی اخباروں نے یہ خوشخبری سنا دی کہ عنقریب "نئے مشرق وسطی” کا قیام عمل میں آنے والا ہے۔ بظاہر نئے مشرق وسطی کا نقشہ بھی تبدیل کر دیا گیا تھا جس میں ایران، عراق، شام، لبنان اور بہت سے دیگر ممالک شامل نہیں تھے۔ اس سب کے باوجود ابھی تک یہ واضح نہیں ہو پایا کہ اس نئے منصوبے میں امریکہ کس حد تک سرمایہ کاری کرے گا اور خطے کے امیر ممالک جیسے سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات کس قدر اخراجات برداشت کریں گے۔ ابتدائی طور پر امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ دنیا بھر میں ترقیاتی منصوبوں میں 200 ارب ڈالر سرمایہ کاری کیلئے تیار ہے۔

3)۔ امریکہ کی نہ ختم ہونے والی جنگیں

بلوم برگ نیوز ایجنسی نے چند دن پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ چین کا مقابلہ کرنے کیلئے مشرق وسطی خطے میں امریکہ کی سرمایہ کاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملک آخرکار اس حقیقت کو بھانپ گیا ہے کہ دنیا اور دیگر ممالک کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے کیلئے جنگ کے علاوہ بھی کوئی راستے پائے جاتے ہیں۔ امریکہ آخرکار چین کی خارجہ پالیسیوں اور اقدامات کے تناظر میں اس حقیقت کو پا گیا ہے کہ دیگر ممالک کو امریکہ کی سیاسی آئیڈیالوجی قبول کرنے پر مجبور کرنا ہی دنیا پر اثرانداز ہونے کا واحد راستہ نہیں ہے اور بہترین راستہ اقتصادی شعبے میں سرمایہ کاری ہے۔ یہ تجزیہ شاید کچھ پہلووں سے درست ہو لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آیا امریکہ ایسی پالیسی آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ دنیا میں امریکہ کی نہ ختم ہونے والی جنگوں نے اس کی اقتصادی طاقت اس حد تک کم کر دی ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔

4)۔ امریکہ کی وعدہ خلافیاں
امریکی حکومت کی تاریخ ایسے وعدوں سے بھری پڑی ہے جن کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اگر ہم سیاسی مسائل سے ہٹ کر بھی دیکھیں اور اپنی توجہ صرف اقتصادی امور پر مرکوز کریں تب بھی دیکھیں گے کہ امریکہ نے ہمیشہ وعدے کر کے اس کی خلاف شکنی کی ہے۔ صدر اوباما اور وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے دور میں افغانستان کی تعمیر نو کیلئے بڑی مالی امداد کا وعدہ کیا گیا۔ کئی بار اعلان کیا گیا کہ افغانستان کی تعمیر نو کیلئے اربوں ڈالر کا بجٹ مخصوص کیا جائے گا لیکن ہر گز ان پر عمل نہیں ہوا۔ جو تھوڑا بہت بجٹ فراہم کیا گیا وہ بھی کرپشن کی نذر ہو گیا۔ 2021ء میں جب امریکہ افغانستان سے نکل رہا تھا تو نہ صرف افغانستان کی تعمیر نو نہیں کی گئی تھی بلکہ امریکہ اور عالمی اداروں میں افغان عوام کے پیسے منجمد کر دیے گئے۔

تحریر: ثمانہ اکوان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button