حزب اللہ کی طاقت دنیا کے 95 فیصد ممالک سے زیادہ ہے,اسرائیلی اخبار
شیعہ نیوز:22 جنوری کو کویت کے وزیر خارجہ نے لبنان کے ساتھ خلیج فارس کے عرب ممالک کے تعلقات اور اربوں ڈالر کی مالی مدد کی بحالی کے لئے بیروت کے سامنے کچھ شرطیں پیش کی تھیں۔
ان شرطوں میں سب سے اہم شرط حزب اللہ لبنان سے ہتھیار زمین پر رکھنے اور اس اسلامی مزاحمتی تحریک کے ترک اسلحہ کے لئے ایک وقت معین کرنا شامل ہے۔
اس کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداد 1559 کا حوالہ دیا گیا ہے جسے 2004 میں منظور کیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں لبنان میں غیر سرکاری مسلح گروہوں کے ترک اسلحہ کی اپیل کی گئی تھی۔
خلیج فارس کے عرب ممالک نے لبنان کے سامنے موجود مالی بحران کو مزید شدید کر دیا ہے جسے عالمی بینک نے اس ملک کا اب تک کا سب سے بڑا بحران قرار دیا ہے۔
حالانکہ حکومت لبنان نے کویت اور خلیج فارس کے عرب ممالک سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ حزب اللہ کے ترک اسلحہ کی شرط کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کی جائے گی۔
29 جنوری کو کویت میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے جانے سے پہلے لبنان کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ میں حزب اللہ کے ہتھیاروں کو حوالے کرنے کے لئے کویت نہیں جا رہا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں حزب اللہ کے وجود کو ختم کرنے نہیں جا رہا ہوں، لبنان میں حزب اللہ پر سوالیہ نشان لگانا ممکن نہیں ہے۔
در اصل جنوبی لبنان پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلحانہ جد و جہد کے لئے حزب اللہ کی تشکیل ہوئی تھی لیکن اب یہ تحریک اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ اسے علاقائی عرب ممالک اپنی شاہی اور آمر حکومتوں اور استعماری طاقتیں اپنے مفاد کے لئے خطرہ سمجھنے لگی ہيں۔
اس کے ساتھ ہی 2006 میں جنگ کے بعد دنیا نے حزب اللہ کی طاقت کا لوہا مانا اور شام کے بحران میں داعش اور تکفیری دہشت گرد گروہوں کے خلاف حزب اللہ کے اہم کردار نے علاقے کی رجعت پسند طاقتوں اور حکومتوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔
خلیج فارس کے علاقائی عرب ممالک حزب اللہ پر جنگ یمن میں تحریک انصار اللہ کی حمایت کے بھی الزامات عائد کر رہے ہيں جس کی تردید تحریک حزب اللہ نے سختی سے کی ہے۔
صیہونی اخبار جیروزلم پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کی فوجی طاقت دنیا کے 95 فیصد ممالک سے زیادہ ہے۔
یہی سبب ہے کہ ایک مزاحمتی گروہ کی حیثیت سے حزب اللہ کی فوجی طاقت سے نہ صرف اسرائیل خطرہ محسوس کرتا ہے بلکہ علاقے کے خلاف سازش کرنے والے ہر ملک کو اس سے خطرہ ہے۔
اسرائیل کے فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ حزب اللہ کا اگر دوسرے ممالک کی فوج سے مقایسہ کیا جائے تو اس کی طاقت کے مقابلے میں کوئی بھی عرب ملک ٹک نہيں پائے گا۔