مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

حزب اللہ کے مہرے نے امریکی اور اسرائیلی بساط لپیٹ دی…

شیعہ نیوز:حزب اللہ کا یوم شہدا بھی بہت خاص دن ہے، یہ احمد قصیر نامی مجاہد کی شہادت کا دن ہے۔

جبل ھرمل کے رہائیشی اس مجاہد نے 1982 میں جب اسرائیلی فوجی لبنان کے اندر داخل ہوگئی تھی سور نامی علاقے میں اپنی پیژو گاڑی میں دھماکہ خیز مواد بھرے اور اسرائیلی فوجی مرکز سے ٹکرا دیا۔ حزب اللہ نے اس حملے کی ذمہ داری تین سال بعد 1985 میں قبول کی تھی۔

سید حسن نصر اللہ کی تقریر کی پہلی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے اس شہید کی شجاعت کی قدردانی کی اور اس بارے میں خاص طور پر بات کی۔

دوسری خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے امریکا کی ضمانت پر بھروسہ کئے جانے کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لبنان اور صیہونی حکومت کے درمیان سمندری سرحد کو لے کے جو حالیہ سمجھوتہ ہوا ہے بے شک اس کی ضمانت امریکا نے لی ہے تاہم ملک کے اندر اگر کوئی اس گارنٹی پر بھروسہ کرتا ہے تو اس کی یہ نادانی ہے۔

انہوں نے دلیل دی کہ تیس سال پہلے اوسلو معاہدہ ہوا تھا جس کی گارنٹی امریکا نے لی تھی تاہم اس معاہدے کا انجام کیا ہوا اور اسرائیل نے اس سمجھوتے کا کیا حال کیا، یہ تو سب کے سامنے آئے ہیں۔

سید حسن نصر اللہ کا یہ کہنا تھا کہ یہ سمجھوتہ اسلامی مزاحمتی فورس کے خوف سے اسرائیل کو کرنا پڑا کیونکہ اسے یقین تھا کہ سمجھوتہ کئے بغیر وہ اس علاقے سے تیل اور گيس نکال نہیں پائے گا، اس لئے کہ حزب اللہ نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ جب تک سمجھوتہ نہیں ہو جاتا اسرائیل کو اس سمندری علاقے سے تیل اور گیس نکالنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔

اسرائیل کی مجبوری یہ تھی کہ امریکا اور یورپی ممالک اس وقت جنگ یوکرین میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے اور وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مغربی ایشیا کے علاقے میں کوئی نئی جنگ شروع کر سکے۔ امریکا اور یورپی ممالک کی حمایت کے بغیر کوئی جنگ شروع کرنا، اسرائیل کے لئے خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔

یہ حزب اللہ کی دقیق سمجھداری اور اسٹراٹیجک پوزیشن کے صحیح جائزے کا نتجہ ہے کہ اسرائیل کو اس سمجھوتے پر مجبور کر دیا ورنہ کئی عشروں سے اسرائیل اس طرح کا کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں تھا۔

اسرائیل کی کوشش تھی کہ لبنان کے سمندری علاقے کا کچھ حصہ اپنے قبضے میں لے لے تاہم اس کا یہ منصربہ پورا نہیں ہو سکا۔

جہاں تک امریکا کی ضمانت پھر بھروسہ کرنے کی بات ہے تو امریکا کے بہت قریبی اتحادیوں کے انجام پر ایک بار نظر ڈال لینا کافی ہے۔ سرسری جائزہ لے کر بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ امریکا کی باتوں پر بھروسہ کرنا نادانی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button