اہم پاکستانی خبریں

اگر عدلیہ نے 90 روز میں انتخابات کرانے کا کہا تو ہم کروائیں گے، نگران وزیراعظم

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق انتخابات کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے، اگر اعلیٰ عدلیہ نے 90دن میں الیکشن کرانے کا کہا تو ہم الیکشن کرائیں گے اور اس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔

جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے سلیم صافی کے ایک سوال پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ مجھے نگران وزیر اعظم بننے سے دو یا تین روز قبل سابق وزیراعظم شہبازشریف نے پیغام بھیجا تھا کہ کیا آپ اسلام آباد میں دستیاب ہیں جس پر میں نے مثبت جواب دیا تھا اور پھر مجھے بتایا گیا کہ ہم آپ کو ایک اہم ذمے داری کے لیے زیر غور لا رہے ہیں تو آپ ذہنی طور پر تیار رہیں۔

انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا، کل کو اس قانون کے حوالے سے سوالات اگر اعلیٰ عدلیہ کے سامنے آتے ہیں اور وہاں آئینی ماہرین وہ کوئی قانونی پوزیشن لیتے ہیں تو اس کے جو قانونی نتائج برآمد ہوں گے ہم اس کے پابند ہوں گے، اس وقت میری کوئی پوزیشن لینے یا نہ لینے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اہمیت قانون کی ہے اور جب تک اعلیٰ عدلیہ کا اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں آجاتا تو ہم پابند ہیں کہ ان قوانین کی روشنی میں اپنا طرز عمل اختیار کریں۔

انوار الحق کاکر نے کہا کہ اگر اعلیٰ عدلیہ نے 90دن میں الیکشن کرانے کا کہا تو ہم الیکشن کرائیں گے، اس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے، اگر ہم اعلیٰ عدلیہ کی تکریم اور احترام پر کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں اور عدلیہ کا اہم ستون بے ترتیب ہوتا ہے تو ہمارے طرز زندگی اور نظام سیاست پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دستیاب سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرتی ہے، جس قسم کی بھی تشریخ کرتی ہے تو وہ دونوں صورتوں میں ہمارے لیے قابل قبول ہوتی ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم قوانین کی تشریح کرنا شروع کردیں۔

وزیر اعظم نے بجلی بلوں کے حوالے سے اپنے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ الفاظ ہمارے کچھ صحافیوں کی مہربانی ہے جنہوں نے ہڑتال اور پہیہ جام کے الفاظ کو مجھ سے منسوب کر کے پورے پاکستان میں پھیلا دیا، اس 40 منٹ دورانیے کی ریکارڈنگ ہے اور ان دونوں الفاظ میں سے کسی کو استعمال کیا گیا ہو تو میں ان لوگوں کو جرمانہ ادا کرنے کے لیے تیار ہوں جو سراپا احتجاج ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کے بلوں کا مسئلہ کثیر الجتی ہے، بطور نگران وزیر اعظم پہلے اجلاس پاور ٹیرف اور ٹیکسیشن کے حوالے سے کیے تھے، ہم نے ان دو شعبوں کو ترجیح دی، یہ مسئلہ مختلف مالیاتی اداروں کی شرائط سے جڑا ہوا ہے، انہیں حل کرنے میں وقت لگتا ہے اور ہم نے اب تک سب سے زیادہ وقت انہیں مسائل کے حل پر صرف کیا ہے۔

ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے حوالے سے سوال پر نگران وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچ شدت پسندوں اور ٹی ٹی پی کے حملوں میں جو اضافہ نظر آ رہا ہے تو میرا خیال ہے کہ اس کی وجہ ناصرف افغانستان میں اندرونی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلی ہے بلکہ اس سے زیادہ وہ سامان، ہتھیار اور آلات ہیں جو امریکا اور اس کے اتحادی چھوڑ کر گئے ہیں، یہ ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان آلات اور ہتھیاروں نے ان شدت پسندوں اضافی استعداد اور قوت فراہم کی ہے جس کی وجہ سے ان حملوں میں تیزی آئی ہے، یہ ہماری پالیسی کی وجہ سے نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کے پاس مذاکرات اور طاقت کے استعمال دونوں کے استعمال کا حق ہوتا ہے، ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ پرامن سماجی نظام کے حصول کے لیے مذاکرات کامیاب ہوں گے یا طاقت کا استعمال زیادہ موثر رہے گا، اس وقت دونوں ہی طریقوں کا استعمال کرنا پڑے گا۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہماری پالیسی تو یہی ہے کہ ہم پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں، یہ سب خوشحال، مستحکم اور پرامن پاکستان کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔

عمران خان اور ان کے کارکنوں سمیت پی ٹی آئی کی قیادت کی قید کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ 9مئی کو جو کچھ ہوا وہ ناصرف سارے پاکستان بلکہ پوری دنیا نے دیکھا، تمام بڑے بین الاقوامی آزاد اداروں نے ان حملوں کی کوریج کی جس پر انہوں نے بھی ایک رائے قائم کی کہ اس طرح کی ہلڑ بازی کسی بھی جمہوری حکومت یا غیرجمہوری طرز حکومت میں ناقابل برداشت ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی کوشش تھی جس میں ہدف موجودہ آرمی چیف اور ان کی ٹیم تھی۔

ایک اور سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمارا تاریخی طور پر رشتہ دوستانہ نہیں رہا، ہم آپس میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں، ایک دوسرے کی ضد کی وجہ سے جوہری ہتھیار بنا لیے، انہوں نے 1971 میں ہمارا ایک بازو کاٹنے میں مدد کی ، وہ بطور ہمسایہ ہم سے بھی زیادہ مطمئن نہیں ہیں، پھر سب سے بڑھ کشمیر ایک حلب طلب تنازع ہے، کشمیر کے بغیر کوئی مذاکرات یا تجارت نہیں ہو سکتی۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button