اہم پاکستانی خبریںمضامین

**قائم آل محمد ع اور ہمارا یقین **

ہمارا امام ؑ ہم سے اتنا قریب ہے کہ ہمارے الفاظ ہمارے کان میں بعد میں پہنچتے ہیں پہلے مولا قائم ع سن لیتے ہیں۔ ہم کیوں اب تک اس عقیدے اور اس یقین سے بے بہرہ ہیں۔ ہم کب تک دوسروں کے کھوکلے دروازے پر دستک دیتے رہیں گے۔ہم کب یقین کی جبین در قائم آل محمد ع پر رکھیں گے۔ کب اِس در پر آکر ضدی بنیں گے۔ کب الفاظ کے بجائیں دل والا کنیکشن مضبوط کریں گے۔ وہ سامنے ہی ہیں قلب سے تو دیکھو۔امام فرماتے ع ہیں کہ جب میں ظہور کروں گا تو میرا شیعہ مجھے دیکھ کر بولے گا کہ میں تو آپ کو پہلے بھی دیکھ چکا ہوں۔ توپھر روزانہ مولا ع کو یقین کے ساتھ ڈھونڈنے کی نیت کرتے ہیں ۔

مولا اور ہمارے درمیان صرف گمان کا فاصلہ ہے ۔ ہمارے ذہنوں میں یہ ہے کہ کہاں ہم اور کہاں مولا ع ؟ مولا تو ساتھ ہے ہمیشہ ۔ان کی نگاہیں ہم پر ہیں تو ہم سکون سے ہیں اس دنیا میں ورنہ دشمن ہمیں کاٹ کھاتا۔ ہماری نگاہیں تو بشری تقاضوں کی وجہ سے مولا کو ڈھونڈ نہیں پارہی مگر دل ؟ یہ قلب اس برحق سے رابطہ کیوں نہیں جوڑ پارہا ۔ آخر کہی نہ کہی تو کوئی کمزوری ہے جو آڑے آرہی ہے۔ ہاں اس کمزوری کا نام ہے یقین ،اس کمزوری کا نام ہے تڑپ ، اس کمزوری کا نام ہے پیاس ۔ بس ہمیں جس طرح پیاس لگتی ہے بلکل اسی طرح ہمیں مولا ع کی تڑپ بڑھانی ہے۔ مولا ع کو ہر کام میں ساتھ ساتھ رکھنا ہے تاکہ گناہوں سے دور رہیں اور مشکلات قریب بھٹکنے بھی نہ پائیں۔

مولا ع فرماتے ہیں” رات کو سوتے وقت مجھ سے سرگوشیاں کیا کرو“ سرگوشیاں کیا ہیں ؟ چپکے چپکے باتیں ہی تو ہیں۔اس یقین کے ساتھ باتیں کرو کہ وہ سامنے ہیں۔ بلکے ہمیں تو چاہیئے کہ صبح اٹھ کر مولا ع کو سلام کرکے مدد مانگیں کہ مولا ع آج میری مدد کیجئے گا کہ کوئی گناہ مجھ سے سر زد نہ ہو ، میرے منہ سے گالیاں نہ نکلیں ، میری نظریں گناہ کے مرتکب نہ ہو ،میرے خیال پاکیزہ رہیں،مولا ع آج میرا انٹرویو ہے مجھے یہ نوکری چاہئے ، مولا ع آج میرا پیپر ہے مجھے 95نمبر چاہئے اور بس چاہیے اور بس آپ کو دینا پڑیں گے۔ ہم کیوں ضد نہیں کرتے مولا ع سے کہ وہ تو ہم سے ہمارے والدین سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ مانگنا اپنا حق تو سمجھئیے کہ جس طرح والدہ سے ضد کرتے ہیں ۔ اسی طرح جب کوئی غلطی ہو تو یاد رکھو کسی نے دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو امام ع نے دیکھ لیا ہے۔ پھر سرگوشیاں کرو ، مولا ع آئی ایم سوری ! روتے ہوئے بولو ، ندامت و شرمندگی کے ساتھ بولو،.یقین کےساتھ بولوکہ وہ شفقت کرنے والے ہیں اور وہ پھر گلے لگا لیں گے ۔ معاملہ بہت آسان ہے۔ہمارا یقین بس یقین ہی تو سب سے مشکل مرحلہ ہے اس کے بعد زندگی میں صرف سکون ہےاب وہ آسانیاں ہوں یا مشکلات ۔

میں نے مجلس میں سنا تھا کہ ذاکر کہتا ہے کہ اپنے گھر میں دستر خوان پر ایک فرد کی جگہ چھوڑو جب بچہ پوچھیں تو بتانا کہ مولا ع کے لئے یہ جگہ مختص ہے۔ اسی طرح ایک خاتون سوتے وقت بھی برقعہ پہن کر سوتی تھی کسی نے پوچھا کہ یہ کیوں کرتی ہوں تو اس نے بولا کہ اگر میں سورہی ہوں اور ظہور ہوجائیں تو میں برقعہ ڈھونڈوں گی یا پھر لشکر میں شامل ہونے کے لئے دوڑوں گی۔ ایسا ہی ایک واقعہ اور سنا تھا کہ کسی علاقے میں ایک مرد روزانہ تلوار اور گھوڑے کے ساتھ چوک پر کھڑا ہوتا تھا ۔کسی نے پوچھا تو بتایا کہ امام ع جیسے ہی ظہور فرمائیں گے تو مجھے فوری طورپر جانا ہوگا۔کسی نے ایک دن مذاق میں کہہ دیا کہ تم ادھر کھڑے ہو اور اور فلا مقام پر امام کا ظہور ہوگیا ۔ وہ سرپٹ دوڑا اس مقام کی جانب اور پھر کبھی واپس نہ آیا ۔یقیناً وہ مولا ع کے لشکر میں شامل ہوگا۔ یقین جانئے بلکہ خود سے پوچھئیے ہماری کیا تیاری ہے اپنے امام کے لئے ؟ ہم خود کتنے تیار ہیں ؟ کیا ہماری العجل کی پکار میں روح ہے ؟.تڑپ ہے ؟ یقین ہے ؟نہیں شاید ابھی ہم قلبی و ذہنی طور پر تیار نہیں ہے ۔ ہماری پکار رسمی ہے شاید ، ہمارے تڑپ وقتی ہے شاید ، ہمارے یقین میں کمزوری ہے شاید۔ بلکہ شاید نہیں یقیناً !
تحریر : مہدی عابدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button