برطانیہ میں طوفان الاقصیٰ کے آفٹر شاک، فلسطینی مزاحمتی تحریک کے حامی ایوانِ اقتدار میں داخل
شیعہ نیوز: ایک ایسے عالم میں جب برطانوی قدامت پسند حکومت، صیہونی حکومت کی اہم حامیوں میں سے ایک کے طور پر، عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین کے حامیوں کے مظاہروں کو دبانے میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے، صیہونی حکومت کے ایک معروف مخالف کی فتح نے برطانیہ کے اہل اقتدار کو بے نقاب کر دیا ہے۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک کے اس حامی نے برطانوی سیاسی منظرنامے میں بھونچال مچا دیا ہے۔ 69 سالہ جارج گیلووے جمعہ کے دن "روچڈیل” کے حلقے کے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے 9 سال کی غیر حاضری کے بعد ہاؤس آف کامنز میں واپس آگئے ہیں۔ انہوں نے اپنے جنگ مخالف موقف کی وجہ سے برسوں پہلے لیبر پارٹی چھوڑ دی تھی اور اب وہ 2019ء میں بننے والی برطانوی لیبر پارٹی کے رہنماء کے طور پر ویسٹ منسٹر میں داخل ہوگئے ہیں۔
گیلووے نے اپنی انتخابی جیت کا سہرا اپنے اسرائیل مخالف موقف کو قرار دیا اور ان کا خیال ہے کہ یہ کامیابی برطانوی سیاسی منظر نامے میں ایک اہم موڑ ہے۔ انہوں نے برطانوی سیاسی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "آپ کو غزہ پٹی میں مقبوضہ فلسطین میں رونماء ہونے والے سانحے کو دبانے اور اس پر پردہ ڈالنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔” اسکائی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے گاووئی نے صیہونی حکومت کی غاصبانہ نوعیت کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ صیہونی نسل پرست حکومت کو جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ وہ الفاظ جو انگلینڈ میں کہنا بہت مشکل ہے، کیونکہ اس طرح کا اظہار خیال کرنے والوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لیبر پارٹی کے سابق رہنماء جیرمی کوربن اور لندن کے سابق میئر کین لیونگسٹن اس کی دو مثالیں ہیں، جنہیں صیہونی مخالف پوزیشن لینے کی وجہ سے اسرائیلی لابی کے دباؤ کی وجہ سے نہ صرف سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا گیا بلکہ بری طرح بدنام بھی کیا گیا۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ان میں سے کوئی بھی صیہونی حکومت کے وجود کا مخالف نہیں تھا۔ اسی وجہ سے گیلووے کے بیانات کو برطانوی پارلیمنٹ کے رکن کی جانب سے نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
گیلووے کی سیاسی زندگی پر ایک نظر
جارج گیلووے پہلی بار 1987ء میں گلاسگو کے حلقے میں لیبر پارٹی کے نمائندے کے طور پر ہاؤس آف کامنز میں داخل ہوئے اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندے رائے جینکنز کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے، جو اس سے قبل برطانوی وزارت داخلہ کے وزیر رہ چکے تھے۔ شروع ہی سے وہ لیبر پارٹی کے بائیں بازو کی طرف مائل تھے اور اسی وجہ سے 2003ء میں انہیں ٹونی بلیئر کی قیادت میں جب لیبر پارٹی کی حکومت نے جنگ پسندانہ روش اپنائی تو انہوں لیبر پارٹی سے دوری اختیار کر لی۔ اسی سال، انہیں پارٹی سے برطرف کر دیا گیا، لیکن انہوں نے پارلیمنٹ میں ایک آزاد نمائندے کے طور پر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ گیلووے کچھ عرصے تک "ریسپیکٹ” پارٹی کے رکن رہے اور 2005ء کے انتخابات میں پارلیمنٹ میں اپنی نشست برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔
یہ انگریز سیاست دان 2010ء کے انتخابات میں پارلیمنٹ میں داخل ہونے میں ناکام رہا، لیکن 2 سال بعد وہ بریڈ فورڈ ویسٹ ڈسٹرکٹ کے ضمنی انتخابات میں دوبارہ ویسٹ منسٹر (پارلیمنٹ) میں واپس آنے میں کامیاب ہوگیا۔ انہوں نے 2015ء کے انتخابات تک قانون ساز ادارے میں کام کیا اور اس کے بعد انہوں نے میڈیا پر توجہ دی۔ اس کے اسرائیل مخالف دیرینہ مواقف اس کی جوانی سے جاری ہیں۔ 1977ء میں، لبنان کے اپنے سفر کے بعد، انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنی زندگی فلسطینی نظریات کے حصول کے لیے وقف کر دیں گے۔ 2009ء میں، ان کی ملاقات حماس تحریک کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ سے ہوئی اور چند سال بعد، ایک متنازع اقدام میں، انہوں نے یونیورسٹی کے سیاسی مذاکرے کو اس لئے چھوڑ دیا کیونکہ اس کے منتظمین اسرائیلی تھے۔ انہوں نے کہا: "میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور میں اسرائیلیوں سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔”
گیلووے اب ووٹوں کے بڑے فرق کے ساتھ برطانوی مقننہ میں واپس آئے ہیں اور انہوں نے اس ملک کی دو اہم جماعتوں پر صیہونی حکومت کے جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قدامت پسند حکمران جماعت اور لیبر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، جنہوں نے اسرائیلی لابی کے دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے برطانیہ کے وزیراعظم، رشی سونک اور کیر سٹارمر نے اس علاقے میں کسی بھی فوری جنگ بندی کی مخالفت کی ہے اور اس طرح کی پیشرفت کو اسلامی مزاحمتی گروپوں کے خلاف استعمال کیا ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ جب صیہونی حکومت نے مغرب کی حمایت اور مزاحمتی قوتوں کے اچانک حملوں کا جواب دینے کے لیے غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام شروع کیا ہے۔
اس حکومت نے غزہ پٹی میں تمام گزرگاہوں کو بند کر دیا ہے اور اس علاقے پر بمباری بھی کر رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق 30 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 70 ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ گیلووے کا خیال ہے کہ برطانوی وزیراعظم اور اسٹارمر نے اپنا ضمیر اسرائیل لابی کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ بہرحال برطانیہ میں ضمنی الیکشن میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ سیاستدان یعنی جارج گیلووے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوگئے ہیں۔ اپنی کامیابی کے بعد بات چیت کے دوران وزیراعظم رشی سونک اور لیبر پارٹی کے لیڈر سر کئیر اسٹامر کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے جارج گیلووے نے کہا کہ میری یہ فتح فلسطین کے نہتے مسلمانوں کی فتح ہے۔
ایک انٹرویو میں جارج گیلووے نے اپنی کامیابی کو سیاسی زلزلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کا دوست آج برطانوی پارلیمنٹ میں پہنچ گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق راچڈیل کے انتخابی حلقے سے ضمنی انتخاب میں جارج گیلووے نے 12 ہزار 335 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی، جبکہ ان کے مقابلے میں ڈیوڈ ٹیولی صرف 6 ہزار 638 ووٹ ہی حاصل کر پائے۔ یاد رہے کہ برطانوی بائیں بازو کے سیاستدان جارج گیلووے سات بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوچکے ہیں۔