انٹرویو

شہید ملت کے بیٹے اکبر لیاقت کا تلخ حقائق سے بھرپور انٹرویو؛ انکشافات اور یادیں

کراچی: 16 اکتوبر 2022ءکو ”حلقہ تہذیب و ثقافت“ کے ساتھیوں کے ساتھ ’یومِ لیاقت‘ کے انعقاد کے توسط سے ہمیں پہلی بار نواب زادہ لیاقت علی خان کے خانوادے سے براہ راست رابطوں کا موقع ملا اور ہم اس کے بعد ان کی پہلی دست یاب فرصت میں بتائے گئے پتے کے تعاقب میں صبح 11 بجے سے پہلے کراچی میں ان کے ’دولت کدے‘ کے باہر موجود تھے ’دستکی گھنٹی‘ کی دوسری جانب ایک اسٹیل کی پٹی پر مکان کا نمبر درج تھا لیکن کیا یہ اس ریاست کا صرف ایک عام سا مکان ہے؟ نہ کوئی ریاستی علامت، نہ کوئی قومی پرچم۔ کوئی باضابطہ یا عام سا اعزاز یا کوئی خراج عقیدت، یہاں کچھ بھی تو نہ تھا
سادہ سے در و دیوار اور اس پر صرف مکان نمبر!

کسی نے درست ہی تو کہا تھا ’میاں، گھر کے در و دیوار بنانے والا معمار اِس مکان میں رہتا ہی کب ہے! اور غالباً انھوں نے خود ہی کہا تھا کہ جب تک ایک بھی مہاجر ’بے گھر‘ ہے، میں اپنا گھر نہیں بناﺅں گا! اور شاید اب بھی بہت سوں کو ”گھر“ نہیں ملا، تبھی وہ اور اس کی اولاد اپنے کسی گھر سے محروم ہی رہی، حالاں کہ خود ہندوستانی وزیراعظم جواہر لعل نہرو سے املاک کے تبادلے کا معاہدہ کر کے بٹوارے کے ہنگام میں دونوں جانب ہجرت کو باضابطہ طور پر ’تبادلہ آبادی‘ تسلیم کرایا۔ یہاں سے جانے والوں کو وہاں، یہاں آنے والوں کی املاک دی جانی تھی اور بدلے میں وہاں سے یہاں آنے والوں کو یہاں سے وہاں جانے والوں کی چھوڑی گئی املاک کا تبادلہ ہونا تھا، جو کسی حد تک ہوا بھی، لیکن اس خاندانی رئیس زادے نے اپنے یا اپنی بیوی بچوں کے واسطے کوئی چھپر، کوئی سائبان تک نہ لیا!

ہم سوچتے ہیں کہ اگر اس ریاست کے ’بے زمین‘ بانیانِ پاکستان نے بھی یہاں پنجے گاڑنے والی ’موروثی سیاست‘ کی ’بیماری‘ کو اپنا لیا ہوتا، تو کچھ بعید نہیں، آج یہ گھر بھی اس حساب سے بہت نامی گرامی ہوتا شاید پھر اس گھر کے مکین مع آل اولاد مختلف وزارتوں، سفارتوں اور محکموں میں راج کیا کرتے یکایک ہماری نگاہوں کے سامنے آج کے ’صاحبانِ اقتدار‘ کی رہائش اور اقامت گاہوں کے گرد مضبوط فصیلیں، سخت رکاوٹیں، مسلح محافظ اور تام جھام گھوم کر رہ گئی!
ناقدین اور مخالفین نے لیاقت علی خان پر کراچی میں ’اپنا حلقۂ انتخاب‘ بنانے کا ’الزام‘ ضرور لگایا، لیکن اقتدار کی سیاست کے واسطے اولاد، در اولاد حکومت کرنے کی قبیح ’موروثیت‘ سے ہمارے یہ ’بانیان پاکستان‘ کوسوں دور تھے تبھی شاید اس گھر کے دروازے پر آج کوئی نام تک نہ تھا کہ کسی کو خبر ہوتی کہ یہ اس ملک کے بانیان کی غالباً واحد حیات اولاد اکبر لیاقت علی خان کی اقامت گاہ ہے یہاں بیسویں صدی کے ’یوپی‘ کے ایک بہت بڑے زمیں دار کا ایک گوشہ نشیں چشم و چراغ زندگی کرتا ہے، جس کی جاگیریں ختم ہوئیں، تو فقط اس لیے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک بنانا تھا۔

بقول محمد عثمان جامعی
”یہ ملک بنانے کے لیے چھوڑ دیا سب وہ شان، نوابی جو بزرگوں سے ملا سب وہ عیش، وہ عشرت وہ رئیسانہ ادا، سب وہ توڑ گیا، ڈالے تھے جو طوق گلے میں! اور ماری گئی سینے پہ اک گولی صلے میں!“

اور ہم جیسے 1990ءکی دہائی کے ’بچوں‘ کے دلوں پر ”لیاقت علی کو گولی لگی، ساری دنیا رونے لگی!“ جیسے روایتی اور دل گداز اظہار تا زندگی کے لیے نقش ہیں آج اسی لیاقت علی کے صاحب زادے اکبر لیاقت علی خان کے روبرو ہونے کا قیمتی اعزاز حاصل ہو رہا تھا

چند ہی منٹ بعد وہ مہمان گاہ میں ہماری آنکھوں کے سامنے تھے، فالج کے اثرات کے سبب انھیں بولنے میں کافی دقت کا سامنا ہے، چلنے پھرنے میں کمزوری کے سبب کافی مسائل ہیں، لیکن ملاقات سے اندازہ ہوا کہ ساری گفتگو اچھی طرح سنتے اور سمجھتے ہیں اور اس پر اپنا ردعمل بھی دیتے ہیں، ساتھ ساتھ خاطر داری میں بھی کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑتے، علالت کے باوجود خود دسترخوان سے طشتری اٹھا اٹھا کر پیش کرنا ان کی ذہنی بشاشیت اور خاندانی روایات کی پختگی کی خبر دیتا تھا۔ ہمارے اس انٹرویو کے لیے ان کی شریک حیات ’درّ اکبر‘ نے سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا، اس ملاقات میں وہ بھی نہ صرف موجود رہیں، بلکہ گاہے گاہے ہماری معاون بھی رہیں۔

اکبر لیاقت علی خان نے ہمیں بتایا کہ ان کی پیدائش 1941ء میں دلی کی ہے، 1947ء تک ابتدائی تعلیم وہیں رہی، پھر کراچی میں ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم رہے۔ ”پاکستان کا بننا کتنا یاد ہے؟“ وہ فرماتے ہیں کہ ”کافی یاد ہے، بڑی تعداد میں کراچی کی طرف ہجرت ہونا، والد کا اپنے دفتر میں بیٹھنا کر کام کرنا یادداشت میں موجود ہے“

پھر انھوں نے فوراً 16 اکتوبر 1951ء کا تذکرہ کر دیا، کہنے لگے کہ ”جس دن والد پنڈی جا رہے تھے، میں نے پہلی دفعہ یہ کوشش کی کہ انھیں جانے سے روکوں، میں نے ضد کی اور ان کی ٹانگ پکڑ کر بیٹھ گیا اور انھیں آگے نہیں جانے دیا۔ انھوں نے کہا ”میاں ابھی جا رہا ہوں، شام کو آجاﺅں گا، فکر کیوں کر رہے ہو!“ لیکن میں نے ان کی ٹانگ نہیں چھوڑی، پھر ایک ملازم نے زبردستی مجھے دور ہٹایا۔

پھر جب یہ واقعہ ہوا، تو مجھے آج تک یاد ہے، گھر میں سب لوگ رو رہے تھے، مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ کیوں رو رہے تھے۔ میں نے اپنے بھائی سے پوچھا تھا ’اشرف، یہ سب نوکر، اور یہ سب کیوں رو رہے ہیں؟ وہ کہنے لگے مجھے بھی نہیں پتا یہ کیا ہو رہا ہے، بس پھر کچھ ہی دیر میں ہمیں سب پتا چل گیا کہ کیا ہوا ہے! والد کی شہادت کا مجھے بہت دکھ ہوا، کہ میں تو انھیں وہاں جانے سے روک ہی رہا تھا، خیر تب میری عمر 10 سال تھی، مجھے گھر میں بہت سارے سوگواروں کا آنا یاد ہے، اس دن گرمی بھی بہت تھی۔“

ہم نے پوچھا کہ ”آپ 1951ءمیں کون سی کلاس میں تھے، پانچویں میں؟“ تو ہنسے، کہنے لگے ”یہ کیسے پتا آپ کو، ہم نے کہا آپ کی اس وقت کی عمر سے ہم نے اندازہ لگایا۔ والد کی شہادت کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں شام کو جب یہ واقعہ ہوا تو ہم گھر میں ہی تھے، بہت برے دن تھے بہت برے! تب میں نے سوچا ’اکبر، تم چاہتے تو انھیں روک سکتے تھے، لیکن میں نے کہا ایسے کیسے روکتا تھوڑا سا بڑا ہوتا تو شاید روک لیتا، 10 سال کی عمر میںآپ کیا کر سکتے ہیں۔“

1947ءتا 1951ءکی یادیں دریافت کی گئیں، تو اکبر لیاقت نے بتایا کہ ”انھیں بہت کم وقت ملتا تھا، صرف صبح کے 10 منٹ، جب وہ شیو کرتے تھے، اور یہ ہمارے اسکول جانے سے پہلے کا وقت ہوتا تھا اور پھر شام کو بھی اتنی ہی دیر وقت ملتا، جب وہ ہمارے ساتھ ہوتے۔ کبھی کبھی وہ چُھٹی والے روز پر ہاکس بے ساحل سے آگے بلیجی (پیراڈائز پوائنٹ) لے جاتے۔ بعد میں پتا چلا کہ والد وہاں پانی کی صورت حال اور وہاں کے موسمی حالات وغیرہ دیکھنے جاتے تھے، کیوں کہ وہ کراچی سے دارلحکومت وہاں منتقل کرنا چاہتے تھے۔“

”وہاں کیوں منتقل کرنا چاہتے تھے؟“ ہمارے ذہن میں خیال آیا، وہ گویا ہوئے:

”کراچی بہت گنجان ہوگیا تھا، اور حکومتی دفاتر آنے والے لوگ پریشان ہوتے تھے، اس لیے انھوں نے سوچا کہ یہ اچھا وقت ہے کہ دارالحکومت منتقل کر دیں، وہ نہیں ہو سکا، اس کے بعد ہوا تو، لیکن وہ اسلام آباد منتقل ہوگیا۔“ (ہنسنے لگتے ہیں)

ہم نے پوچھا کہ لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کی آج تک خبر نہ ہوئی، اس کے تحقیقاتی کمیشن کی فائلیں اور ثبوت لے جانے والا جہاز بھی حادثے کا شکار ہوگیا؟ تو انھوں نے بتایا کہ:

”اعتزاز الدین نے ہماری والدہ سے کہا تھا کہ مجھے پتا چل گیا ہے کہ ان کے قتل میں کون کون ملوث ہے، لیکن انھوں نے کسی کا نام نہیں لیا تھا، اور کہا تھا کہ میں وہاں جا رہا ہوں، بس پھر ان کا جہاز ہی گر گیا۔ (آئی جی پولیس اعتزاز الدین ممتاز دانش ور جمیل الدین عالی کے بھائی تھے۔)

اکبر لیاقت صاحب نے 1952ءمیں اپنی والدہ کے ہالینڈ میں سفیر لگ جانے کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ پھر میں اور بڑے بھائی اشرف نے وہاں اسکول میں داخلہ لیا پھر یوں بتایا:

”والدہ سفیر بنیں، کیوں کہ ہمیں تعلیم دلانے کے لیے پیسے نہیں تھے، ہالینڈ کی ملکہ جولیانہ کی یہ خواہش تھی کہ والدہ ان کے ہاں سفیر بن کر آجائیں، وہ ان کی صورت حال سے واقف تھیں۔ انھوں نے وہاں ہمارا بہت خیال رکھا، جب انھیں پتا چلا کہ ہمارے پاس گھر نہیں، تو انھوں نے ہمیں گھر دیا اور بہت اچھا گھر دیا۔ ہماری والدہ نے وہ گھر بھی ’حکومت پاکستان‘ کو دے دیا۔ اس سے پہلے دلی میں ہمارا بڑا سارا گھر پاکستان کو عطیہ کیا، جہاں پاکستانی ہائی کمیشن ہے، وہ گھر بھی یاد ہے مجھے۔“

ہم نے دریافت کیا کہ کہا جاتا ہے کہ بیگم رعنا لیاقت علی کو سفیر بنا کر اسی لیے باہر بھیجا گیا تھا، تاکہ وہ لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے زیادہ پریشانی کا باعث نہ بنیں؟ تو اکبر لیاقت علی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ”سیدھی بات ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے، پیسے کیسے کمائیں؟ کیا کریں؟ لیاقت علی خان کی شہادت کے وقت ان کے اکاﺅنٹ میں ڈیڑھ، دو ہزار روپے تھے۔ ہالینڈ کی ملکہ جولیانہ کی والدہ سے دوستی تھی، انھوں نے کہا کہ بیگم صاحبہ کو میرے ہاں بھیج دیجیے۔

ہم نے والدہ کی سفارت کے دوران ان کا کچھ حال احوال پوچھا، تو کہا وہاں سے پھر اٹلی اور تیونس وغیرہ میں بھی والدہ نے سفارتی ذمہ داریاں ادا کیں، بہت اچھے دن گزارے۔ یہاں تو ہر لمحہ والد کی یادیں ستاتی تھیں، وہاں اس حوالے سے دل تھوڑا سا بہلا رہا، کراچی میں تھا تو ہر دن وہ یاد آتے تھے، وہاں اتنا نہیں۔“

اکبر لیاقت علی نے بتایا کہ باقی کی ساری تعلیم باہر ہی حاصل کی۔ ہم نے پوچھا کتنے عرصے باہر رہے؟ تو بتایا کہ 1952ءسے 1964ءتک باہر رہے، پھر انھیں مردان میں پریمئر شوگر ملز میں ڈائریکٹر بنا دیا۔ ہم نے پوچھا کہ ”کیا ایوب خان نے بنایا؟“ انھوں نے تردید کی اور کہا کہ ”میر افضل خان نے بنایا، ایوب خان کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔“

ہمارے پاس سوالات میں سے ایک اہم سوال شہید ملت کے خانوادے کے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح سے تعلقات کے حوالے سے تھا، جس پر اکبر لیاقت علی نے بتایا کہ ”ٹھیک تھے، ہماری تو کوئی ایسی بات نہیں تھی۔“ ہم نے محترمہ فاطمہ جناح اور جنرل ایوب خان کے صدارتی انتخابات میں بیگم رعنا لیاقت اور ان کی حمایت کا استفسار کیا تو انھوں نے بتایا:
”ہم غیر جانب دار تھے، جنرل ایوب کے اصرار کے باوجود بیگم رعنا لیاقت نے کہا تھا کہ میں آپ کی بالکل حمایت نہیں کروں گی، یہی اختلاف پھر ان کو سفارت سے بلانے کا سبب بنا۔“

اکبر لیاقت سے دوران گفتگو ان کی اہلیہ دُرّ اکبر نے ’راشنگ‘ کے حوالے سے یاد دلایا، تو وہ ہنسنے لگے۔ ہم نے یہ بات جاننے کا اصرار کیا تو بتایا کہ ”جب شکر کی راشنگ ہوتی تھی، اور مجھے شکر بہت پسند تھی، میں اکثر شکر کھایا کرتا تھا، مگر ہمیں بھی اتنی ہی شکر ملتی تھی، جو سب کو ملتی ہے، میں نے اپنے والد سے کہا ”آپ تو بڑے آدمی ہیں، آپ تو زیادہ لے سکتے ہیں، وہ کہنے لگے ہاں لے سکتا ہوں، لیکن لوں گا نہیں، کیوں کہ یہ آپ کو سیکھنا ہے ’راشن‘ کیا ہوتا ہے۔ باقی عوام بھی تو اسی میں گزارا کر رہے ہیں۔‘ تو میں چپ ہوگیا۔“

ہماری تاریخ میں شہید ملت لیاقت علی خان اور بنگال کے بڑے راہ نما اور بعد میں وزیراعظم پاکستان بننے والے حسین شہید سہروردی سے اختلافات وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ہم نے اکبر لیاقت سے حسین شہید سہروردی سے میل جول کی بابت بھی دریافت کیا۔ انھوں نے کہا کہ ”سہروردی صاحب سے تو اچھے تعلقات تھے، کافی میل جول بھی رہا۔ لندن میں ان کا بیٹا راشد سہروردی ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا۔ سہروردی صاحب جب لندن آتے تھے تو ہمارے ہاں آتے تھے اور تب شیخ مجیب الرحمن اِن سے ملنے آتا تو راشد انھیں باہر بٹھا دیتا تھا، اندر نہیں آنے دیتا تھا۔ بعد میں شیخ مجیب الرحمن بہت بڑا آدمی ہوگیا، میں راشد کو کہتا تھا کہ اس بے چارے کو اندر تو بلا لو، لیکن وہ بہ ضد رہتا اور کہتا کہ نہیں۔ حسین شہید سہروردی کافی مرتبہ ملے اور بہت اچھی طرح ملے۔“

ہم نے کہا کہ سہروردی کے تو لیاقت علی خان سے اختلافات تھے؟ تو انھوں نے کہا کہ ”ہاں، تب مجھے کچھ پتا نہیں تھا، یہ باتیں مجھے بعد میں پتا چلیں۔“

اکبر لیاقت اپنی والدہ اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر بیگم رعنا لیاقت علی خان کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ایک تقریب میں ان کا اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان سے آمنا سامنا ہوا تو انھوں نے کہا ”بیگم صاحبہ، دیکھیے، آپ کی شکایت کے باوجود آج میں آرمی چیف بن گیا ہوں، اور اب میرے پاس اتنی طاقت ہے کہ کیا بتاﺅں! آپ نے میرے خلاف ایک رپورٹ کرائی تھی کہ میں ’اپوا‘ (آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن) کی خواتین کو تنگ کرتا ہوں اور پھر مجھے کوئٹہ بھیج دیا گیا کہ وہاں ٹھیک رہوں گا، لیکن اس کے باوجود میں آج آرمی چیف بن گیا ہوں۔“

اکبر لیاقت نے بطور گورنر سندھ بیگم رعنا لیاقت علی خان کا ایک اور واقعہ بھی سنایا، جب وہ پوری وفاقی کابینہ کے لیے ایک عشائیے کی میزبان تھیں، طے شدہ پروگرام کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے مہمانوں کو پہنچنا تھا اور اس کے بعد نو بجے کھانا کھُلنا تھا۔ بہت سے مہمان پہنچ گئے، لیکن وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا انتظار ہی رہا، یہاں تک کہ ان کی آمد کے کوئی آثار نہیں پائے گئے، لیکن بیگم رعنا نے پروگرام کے مطابق ٹھیک نو بجے کھانے کا اعلان کر دیا جس پر کابینہ کے ارکان کانپنے لگے تھے کہ یہ کیا ہوگیا پھر بھٹو صاحب کھانے کے ’پہلے مرحلے‘ کے بعد آئے اور آکر معذرت کی کہ آج پتا نہیں کیا ہوگیا، میں کام میں پھنس گیا، ورنہ مجھے یہاں آنے میں دیر نہیں ہوتی۔ بیگم رعنا نے کہا کہ آئیے بیٹھے، کھانے کے ’دوسرے مرحلے‘ میں شامل ہو جائیے۔ اس موقع پر موجود کابینہ کے سب ارکان حیران تھے، کیوں کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ بھٹو صاحب آکر گالیاں دیں گے کہ میرے آئے بغیر تم لوگ کھانے کے لیے کیسے بیٹھ گئے۔“

اکبر لیاقت کی اہلیہ دُرّ اکبر کہتی ہیں کہ ”اپنے قتل سے چھے ماہ پہلے اکبر لیاقت کو بے نظیر بھٹو نے بھی پیش کش کی تھی کہ آپ ہمارے ساتھ آئیں ہم آپ کو نشست دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم مدد کریں گے، تو انھوں نے کہا کہ پھر جو لوگ مدد کریں گے، بعد میں وہ اس بنیاد پر مجھ سے کوئی بے جا کام بھی کروائیں گے اور اگر وہ حق بہ جانب نہ ہوا تو وہ کام تو میں نہیں کروں گا۔“

وہ کہتے ہیں کہ ”ٹریول ایجینسی ’جی ایس اے‘ سے وابستہ رہے، اب 81 سال عمر ہوگئی ہے، ریٹائر ہوگیا ہوں۔“ ہم نے اکبر لیاقت علی سے پوچھا کہ ان کے پاس اتنی یادیں ہیں، انھوں نے کوئی کتاب وغیرہ کیوں نہیں لکھی، وہ کہتے ہیں کہ بس، ویسے ہی کوئی خاص وجہ نہیں، بس اس حوالے سے کبھی موڈ ہی نہیں بنا۔

درّ اکبر لیاقت کے مطابق 16 اکتوبر 2022ءکو آرٹس کونسل میں ’یوم لیاقت‘ کی تقریب سے مختصر مواصلاتی اظہار خیال سے قبل لیاقت علی خان کے حوالے سے ایک آدھ بار ’جنگ‘ اخبار اور ایک مرتبہ کراچی کے ’ادبی میلے‘ میں انھیں بات کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد دو تین سال سے تو ان کی صحت بہت زیادہ خراب ہے۔ اس ملاقات کے آخر میں جب وہ آرام کے لیے واپس جا رہے تھے، تو ہم نے تبرکاً ان سے اپنا نام لکھوا کر دستخط لیے اور ان کے آگے سرنگوں ہو کر اپنے سر پر ان کا قیمتی دستِ شفقت وصول کیا۔
٭ بیگم رعنا لیاقت علی کا بھی کوئی گھر نہ تھا!

اکبر لیاقت علی خان سے شرفِ ملاقات کے دوران ہم نے دریافت کیا کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کا یہاں اپنا کوئی گھر نہیں تھا، تو پھر آپ لوگوں کا اپنا گھر کب بنا؟ تو جناب، ہمیں اس کا منطقی جواب یہی ملا کہ کبھی نہیں! یہاں تک کہ بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی یہاں ایک سرکاری ٹھکانے پر ہی اقامت پذیر رہیں۔ اکبر لیاقت کے بقول انھوں نے 1968ءمیں وطن واپسی پر ایک فلیٹ خریدا تھا، بیگم رعنا کو 1951ءمیں وزیراعظم ہاﺅس سے ہٹایا تو ایک سرکاری گھر میں ٹھیرایا گیا، ان کے پاس اپنا کوئی گھر نہیں رہا، وہ پھر اسی گھر میں رہتی تھیں۔ اکبر لیاقت کی اہلیہ درّ اکبر بتاتی ہیں کہ جب نواز شریف کی حکومت تھی، تو انھوں نے کراچی میں لیاقت علی خان کے دونوں بیٹوں کے لیے ایک گھر دےا اور اب ’حکومت سندھ‘ پچھلے ایک سال سے اکبر لیاقت کی طبی ضروریات پوری کر رہی ہے، جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

٭ شریکِ حیات سابق وزیر خارجہ کے بھائی کی نواسی ہیں

اکبر لیاقت علی خان شادی کے حوالے سے پوچھے گئے ہمارے ایک سوال کے جواب میں بتاتے ہیں کہ ان کی پہلی شادی 1966ءمیں نواب زادہ عسکری حیدر بلگرامی کی بیٹی مریم بلگرامی سے ہوئی، شادی کے نو سال بعد ان سے علاحدگی ہوگئی، پھر 1993ءمیں دوسری شادی درّ اکبر سے ہوئی۔ درّ اکبر نے ہمیں بتایا کہ ان کا تعلق بنگال سے ہے اور ان کے نانا پاکستان کے چوتھے وزیر خارجہ حمید الحق چوہدری کے سگے بھائی تھے، جو 1955ءتا 1956ءاپنے عہدے پر رہے۔ درّ اکبر کے والد انجینئر تھے ریلوے میں رہے۔ ان کا نام درّ شبنم تھا، لیکن بچپن سے انھیں اپنے نام کے ساتھ ’شبنم‘ لکھنا پسند نہیں تھا۔ اس لیے وہ اپنے والد سراج الاسلام کی مناسبت سے خود کو ’درّ اسلام‘ لکھتی تھیں، اکبر لیاقت سے شادی کے بعد وہ ’درّ اکبر‘ کہلاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اکبر لیاقت کی دو صاحب زادیاں ہیں، جو ان کی پہلی بیوی سے ہیں، اکبر لیاقت کی بڑی صاحب زادی قانون کے شعبے سے وابستہ ہیں اور کینیڈا میں رہتی ہیں، جب کہ چھوٹی بیٹی ایک ’این جی او‘ سے وابستہ اور اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔

٭ ”کانسٹیبل نے چالان معاف کر کے سیلوٹ کیا!“

16 اکتوبر 2022ءکو کراچی کے باشعور نوجوانوں پر مشتمل ”حلقہ¿ تہذیب وثقافت“ کی تحریک اور تعاون سے آرٹس کونسل کراچی کی ’ادبی کمیٹی‘ نے ”یومِ لیاقت“ کی مناسبت سے ایک بھرپور اور شان دار پروگرام منعقد کیا، تو راقم السطور کو بھی اس حوالے سے کچھ ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع ملا۔ وہاں ابھی مہمانوں کی آمد جاری تھی کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت سادہ سا شخص جس کی بود وباش اور انداز واضح طور پر بتا رہا تھا کہ وہ ایسی تقاریب سے ایسا کچھ زیادہ ربط ضبط نہیں رکھتا، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک عجب چمک سی تھی ہمیں یوں متحرک دیکھ کر ہمارے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ ”صاحب، لیاقت علی خان کا بیٹا کہاں ہے؟“ ہم نے اس سادہ لوح شخص کو بتایا کہ وہ بیمار ہیں، اس لیے خود تشریف نہیں لائیں گے، بلکہ بہ ذریعہ ’ویڈیو‘ اس میں شریک ہوں گے۔ یہ محض ایک بہت سرسری سا واقعہ ہے، جو یہ خبر دیتا ہے کہ ہمارے عوام اپنے قائدین کو یاد رکھنا ہی نہیں جانتے، بلکہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے 70 برس بعد بھی انھیں بہت محبت سے اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں، تبھی آج یہ لوگ ان کے اہل خانہ اور ان سے جڑے ہوئے لوگوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے ہیں ایسے ہی تو اصل قائد ہوتے ہیں!

’یوم لیاقت‘ کی تقریب کے تین دن بعد ہم اکبر لیاقت علی خان صاحب کی قدم بوسی کو پہنچے تھے، اکبر لیاقت کی شریک حیات درّ اکبر لیاقت علی خان بھی عوام کی اس والہانہ عقیدت کا تجربہ رکھتی ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ہمیں عوام جب بھی ملتے ہیں، تو بہت عزت دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک ’ٹریفک کانسٹیبل‘ نے ہمارے ڈرائیور کا چالان کیا اور پوچھا کہ یہ کس کی گاڑی ہے؟ اس نے بتایا کہ ”اکبر لیاقت علی خان!“ تو وہ چالان چھوڑ کر اکبر لیاقت کو سیلوٹ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ سر، لیاقت علی خان نے یہ ملک بنایا، تو ہی ہم آج یہاں ملازم ہوئے ہیں!‘ اکبر لیاقت کہتے ہیں کہ مجھے یہ سب کہنا پسند نہیں، لیکن لیاقت علی خان نہ ہوتے تو شاید پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔ ہم نے کہا پاکستان بننے کے بعد اس کا آگے بڑھنے میں بھی تو لیاقت علی خان کا ایک بڑا واضح کردار ہے۔ درّ اکبر کو شکایت ہے کہ پاکستان کی تاریخ سے لیاقت علی خان کے ذکر کو ختم کیا جا رہا ہے، انھوں نے اور بیگم رعنا لیاقت نے اپنا سب کچھ پاکستان کو دے دیا۔ قائداعظم اور لیاقت علی، یہی دو لوگ تھے جنھوں نے پاکستان بنایا تھا اور قائداعظم کو لندن سے منا کر واپس یہاں لانے والے لیاقت علی خان ہی تھے، میرا خیال ہے کہ اسلام آباد ائیر پورٹ کا نام لیاقت علی خان کے نام سے منسوب ہونا چاہیے۔

٭ ”وزیراعلیٰ سندھ کو خط نجی طور پر لکھا تھا“ : درّ اکبر لیاقت

درّ اکبر لیاقت کہتی ہیں کہ انھوں نے اکبر لیاقت کے طبی اخراجات کے حوالے سے ’حکومت سندھ‘ کو پچھلے برس جو ایک خط لکھا تھا، جو قطعی نجی طور پر لکھا گیا تھا، لیکن وہاں غلطی سے باہر آگیا! اس کے بعد لیاقت علی خان کے بیٹے کے نام پر ملک بھر سے ہزاروں عام لوگوں اور مختلف ملکی اداروں نے رابطہ کیا کہ جس کا کوئی شمار نہیں، ایک نوجوان بچی نے فون کر کے ایک خطیر رقم کی پیش کش کی اور کہا کہ بس آپ اپنا اکاﺅنٹ نمبر بتا دیجیے۔ لیکن ہمیں بس ان کی طبی سہولتوں کے حوالے سے کچھ مسائل تھے، اکتوبر میں ان کے ڈیالیسس کو دو سال پورے ہوگئے، انھیں ہفتے میں تین دن ڈیالیسس کے لیے جانا ہوتا ہے۔ ان کی صحت کے کافی مسائل ہیں، پہلے تو کافی زیادہ طبیعت خراب تھی، اب نسبتاً بہتر ہیں۔ ’حکومت سندھ‘ نے یہ تمام اخراجات اٹھا لیے ہیں، اس کے بعد وفاقی حکومت کی پیش کش ہم نے شکریے کے ساتھ واپس کر دی۔

٭ ”قائداعظم نے میرے جوتے کیوں نہیں دیکھے؟“

قیام پاکستان سے قبل دلی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے نواب زادہ لیاقت علی خان کے صاحب زادے بتاتے ہیں کہ ”قائداعظم دلی میں ہمارے گھر آتے تھے، ایک دن وہ ہماری ’مطالعہ گاہ‘ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے بڑے بھائی اشرف لیاقت کو جوتوں کا بہت شوق تھا اور قائداعظم کو بھی تھا۔ ایک روز ایسا ہوا کہ اشرف نے نئے جوتے پہنے ہوئے تھے، قائداعظم آئے، مگر انھوں نے اشرف کے نئے جوتوں کی طرف دھیان نہیں دیا، تو اشرف نے ناراض ہو کر پیر زور سے زمین پر پٹخے قائداعظم نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اشرف نے کہا آپ نے میرے جوتے کیوں نہیں دیکھے؟ پھر ایک اور دفعہ پیر پٹخا۔ اس پر والد صاحب غصہ ہوئے کہ ”یہ کیا کر رہے ہو، آپ کو پتا نہیں کہ قائداعظم کون ہیں؟“ اشرف بولے کہ مجھے نہیں پتا کہ وہ کون ہیں، بس انھوں نے میرے جوتے کیوں نہیں دیکھے اور یہ کیوں نہیں کہا واہ، واہ کتنے شان دار جوتے ہیں۔“

اکبر لیاقت علی خان نے بتایا کہ قائداعظم ’برج‘ کھیلتے، تو وہ اور محترمہ فاطمہ جناح، اور لیاقت علی اور بیگم رعنا لیاقت ایک طرف ہوتے تھے، ایک دن کھیل ہی کھیل میں قائد اعظم اور فاطمہ جناح کی ’لڑائی‘ ہوگئی کہ فلاں چال چلنی چاہیے تھی، اور فلاں نہیں وغیرہ۔ تو ’قائد ملت‘ نے صلح کرانے کے لیے بیگم رعنا کو قائداعظم کی طرف کیا اور فاطمہ جناح کو اپنا آڑی بنا لیا۔

٭ 1977ءکی انتخابی مہم میں 10 ہزار گھروں تک گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کے آخر میں اپنے خلاف مشہورِ زمانہ ’نو ستاروں‘ کی حزب اختلاف کی زور آوری کا توڑ کرنے کے لیے کراچی میں ایک سیاسی چال کے طور پر ممتاز دانش وَر حکیم محمد سعید، مشہور شاعر جمیل الدین عالی کے علاوہ جس شخصیت کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دیا تھا، ان میں سے ایک اکبر لیاقت علی خان بھی تھے، لیکن یہ تمام نیک نام اور اہل کراچی کے دلوں میں بسنے والی شخصیات اس وقت کی سیاسی صف آرائی اور بھٹو مخالف ہوا کے مقابل بری طرح ناکامی سے دوچار ہوگئے تھے سو ہم نے اکبر لیاقت سے اس کا تذکرہ چھیڑتے ہوئے پوچھا کہ ”آپ نے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا؟“ اس پر وہ گویا ہوئے:
”1977ءمیں! یہ بہت برا رہا، بہت مارپیٹ کا سلسلہ تھا، اس وقت غلام مصطفیٰ جتوئی وزیراعلیٰ تھے، ہم انھیں فون کرتے تھے، تو جواب ملتا کہ صاحب سو رہے ہیں سو رہے ہیں! ہم نے کہا ہم لوگ یہاں مر رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ صاحب سو رہے رہیں۔ 1977ءمیں بھٹو نے چار نشستیں ایسے ہی مخالفین کو دے دی تھیں!“
ہم نے کہیں پڑھا ہوا تھا کہ اس انتخابی مہم کے دوران ’لالو کھیت‘ میں پیپلز پارٹی کے خلاف اتنا شدید ردعمل تھا کہ اکبر لیاقت تک اپنے حلقے میں ایک بار بھی نہیں جا پائے تھے، اس لیے ہم نے ان سے استفسار کیا کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ کتنی بار وہاں گئے۔ انھوں نے کہا کہ ”میں ہر دن گیا، میں نے وہاں ’دروازے دروازے‘ تک اپنی مہم چلائی اور 10 ہزار تین سو کچھ گھروں میں تو خود گیا ہوں، مگر ہم بڑے فرق سے ہارے، ہمارے پولنگ اسٹیشن جلا دیے گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پروفیسر غفور احمد (جماعت اسلامی) مدمقابل تھے، مجھے23 ہزار اور انھیں 60 ہزار ووٹ ملے۔ اس کے بعد میرا سیاست سے تعلق نہیں رہا، بڑے بھائی اشرف لیاقت بھی میرپورخاص سے ایک بار انتخاب لڑے اور وہ بھی کام یاب نہ ہو سکے۔“
”آپ اس انتخاب کے لیے راضی تھے یا ذوالفقار بھٹو نے زبردستی آپ کو آگے کر دیا تھا؟“
وہ کہتے ہیں کہ ”نہیں، میں نے رضا مندی سے انتخابات میں حصہ لیا، بھٹو نے مجھ سے کہا تھا ’اکبر، یاد رکھو انتخابات ایک جنگ ہیں! یاد رکھنا جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔‘ لیکن ہماری تو کوئی تیاری ہی نہیں تھی۔“
ہم نے پوچھا کہ آپ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل تھے یا اسی وقت شامل ہوئے؟ تو انھوں نے بتایا کہ اس سے تھوڑا پہلے شامل ہوا۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button