پاکستان میں توانائی بحران،برادر پڑوسی ملک ایران کی ناقابل یقین پیشکش
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) پاکستان میں توانائی بحران،برادر پڑوسی ملک ایران کی ناقابل یقین پیشکش۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے کراچی میں متعین ڈائریکٹر کلچر ڈاکٹر سعید طالبی نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات روز بروز فروغ پارہے ہیں جبکہ سرحدی تجارت میں بھی اضافہ ہورہا ہے، ہم نے گیس پائپ لائن بچھا دی ہے، پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اپنے حصے کی پائپ لائن بچھائے، ہم بہت سستی گیس پاکستان کو دے سکتے ہیں، جس کا پاکستان تصور بھی نہیں کرسکتا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے سی ویو پر واقع سجاد ریسٹورنٹ میں کراچی ایڈیٹر کلب کی جانب سے دیئے گئے عشائیے میں کلب کے عہدیداران اور اراکین سے پاکستان اور ایران کے تعلقات کے فروغ کے سلسلے میں بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ جس کا اہتمام ریسٹورنٹ کے چیف سجاد بیو نے کیا تھا۔ اس موقع پر کراچی ایڈیٹر کلب کے صدر مبشر میر، سیکریٹری جنرل منظر نقوی، سینئر نائب صدر کرنل مختار بٹ، آغا مسعود، بریگیڈیئر طارق، نجم مسوی، حسینہ جتوئی، خورشید حیدر، ساجد، الیاس کمبوہ، زیڈ ایچ خرم، عظیم قریشی، سجاد ریسٹورنٹ کے سربراہ میزبان سجاد ڈایو، حمید بھٹو، لالہ اسد اعجاز حیدر اور نعیم الدین کے علاوہ ایران کلچر سینٹر کے ترجمان نجم موسوی نے شرکت کی۔
ایرانی کلچر سینٹر کے ڈائریکٹر سعید طالبی نیا نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہمارے پاکستان سے بڑے قدیم تعلقات ہیں اور ہم ان تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہتے ہیں جبکہ بعض ممالک ہمارے ان تعلقات کو بگاڑنا چاہتے ہیں لیکن ہم ان کا ساتھ نہیں دیں گے اور اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران سے تجارت کے فروغ کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے، ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کی تجارت میں اضافہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ تجارت بارٹر کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے اور پاک ایران لوکل کرنسی سے بھی ہوسکتی ہے، ایران کی اشیاء کوالٹی کے لحاظ سے بہت اچھی ہیں اور ان کی یہاں بہت مانگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں گذشتہ دنوں ایرانی اشیاء کی جو نمائش لگائی گئی تھی اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں اس قسم کی نمائش لگتی رہنی چاہئیں اور پاکستان بھی ایران میں اپنی اشیاء کی نمائش لگائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فلمی آرٹ اور لٹریچر کو فروغ دینا چاہتے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کی عوام ایک دوسرے کے کلچر سے واقف ہوں۔
یہ خبر بھی پڑھیں جی 20 اجلاس کو مغرب کے مضحکہ خیز شو میں تبدیل کرنے پر ہندوستان سے معذرت خواہ ہیں
کراچی ایڈیٹر کلب کے صدر مبشر میر نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کلب کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کی دوستی صدیوں پرانی ہے، ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 75 فیصد عوام ایران کو اپنا پسندیدہ ملک سمجھتے ہیں۔
اس کی بہت سی وجوہات ہیں کیونکہ ہمارے ملک کی جغرافیائی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں اور ہمارا برادر اسلامی ملک ہے، اس کے علاوہ بہت سی تاریخی شخصیات پاکستان تشریف لائیں اور بہت سی مذہبی شخصیات کے یہاں مزارات بھی ہیں جبکہ ماضی میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی، اس وقت ایران میں مشکل حالات میں مغل بادشاہوں کی مدد کی تھی اور آج بھی مشکل حالات میں پاکستان کا ایران ساتھ دے رہا ہے جس کی پاکستانی عوام قدر کرتے ہیں، ان مذہبی شخصیات نے اسلام کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اردو زبان میں بہت زیادہ الفاظ فارسی کے شامل ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں کئی سو سال تک فارسی زبان بولی جاتی رہی ہے جبکہ شاعری بھی فارسی میں ہی ہوتی رہی ہے، لہذا ہماری زبان اور کلچر کے تعلقات ایران سے بہت گہرے ہیں اور پڑوسی ملک ہونے کے سبب اس کے اثرات بھی بہت زیادہ ہیں، پاکستان کے لوگ جب ایران جاتے ہیں تو وہاں بہت زیادہ اپنایت محسوس ہوتی ہے، ہمارا اپنا بھی تجربہ ہے ہمارے دوستوں کو اندازہ ہے کہ وہاں بہت عزت ملتی ہے، ایران نے انقلاب کے بعد خود کو بہت زیادہ ڈیولپ کیا ہے، پاکستان کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بڑی خواہش ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان معاشی تعلقات کو فروغ حاصل ہو لیکن اس میں بین الاقوامی صورتحال کے باعث جو مشکلات ہیں ہم مل کر ان کو ختم کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی ایڈیٹر کلب کی بھی یہ کوشش رہی ہے کہ تھنک ٹینک کے طور پر کام کریں، ایڈیٹر کلب نے جو کوشش کی ہے اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بہت سے ممالک کے ڈپلو میٹ بھی یہاں آتے رہے ہیں ان کے ساتھ ہم بات چیت کا دور رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ایران کے صحافی حضرات پاکستانی صحافیوں سے ملتے رہیں، ایران کے فنکار اور ادیب پاکستانی فنکاروں اور ادیبوں سے ملیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بہت سے دوستوں نے ایران کی پبلیکشن اور ان کا معیار بھی دیکھا ہے، جنہیں پسند بھی کیا ہے، ہم خاص طور پر ایران کی فلم انڈسٹری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس ہی طرح صحافیوں کو بھی ایک دوسرے ملک میں دورہ کرنے کا موقع ملنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ آغا سعید کی آمد سے دونوں ممالک کو استفادہ ہو اور دونوں ممالک کے تعلقات میں اضافہ ہو، جب ہم ثقافت کی بات کرتے ہیں تو ٹورازم کی بات نہ کریں تو کمی سی رہ جاتی ہے، پاکستانی ایران جانا چاہتے ہیں اور بہت سے ایرانی پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ عظیم قریشی جن کا تعلق ہوٹل انڈسٹری سے ہے جبکہ سجاد کا تعلق ریسٹورینٹ کی انڈسٹری سے ہے، ہماری خواہش ہے کہ دونوں شخصیات کا ٹورازم کے حوالے سے تعارف کرایا جائے۔
یہ خبر بھی پڑھیں میرا قتل بھی ہوسکتا تھا: نیتن یاہو کی بیوی کا دعویٰ
لیجنڈ ہوٹلز کے ایم ڈی عظیم قریشی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایران کو اپنا گھر سمجھتے ہیں، ہمیں اپنے دوست کو پہچاننا چاہیئے، پاکستان ایک زرعی ملک تھا ہم نے اس کو انڈسٹریل ملک بنادیا ہے، اب پاکستان کے پاس صرف ایک ونڈو ہے وہ ٹورازم، اس سے چھوٹے بڑے دونوں شہروں کو کاروبار ملے گا، ایرانی یہاں آئیں، ہم ایران جائیں، ہم سجاد ڈایو کے توسط سے ٹورازم اور کھانوں کی نمائش اسلام آباد کراچی اور دیگر شہروں میں بھی کرسکتے ہیں جبکہ یہی نمائش ایران میں بھی ہوسکتی ہے، ٹورازم سے چھوٹے بڑے شہروں کو کاروبار ملے گا، ہم ایرانی فوڈ فیسٹیول بھی کرسکتے ہیں کیونکہ معاملات بگڑ گئے ہیں اللہ بہتر کرسکتا ہے۔ اس موقع پر کراچی ایڈیٹر کلب کے سیکریٹری جنرل منظر نقوی نے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی نشستوں سے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں، ہمیں امید ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات مستقبل میں بہت بہتر ہوجائیں گے۔
قبل ازیں معزز مہمان نے شرکاء کے سوالوں کے حوالات بھی دیئے اور یقین دلایا کہ آپ کی تجاویز سے وہ ایران کی حکومت کو آگاہ کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ انڈیا ایران سے گیس لینا چاہتا تھا اس کی کیا پوزیشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انڈیا پاکستان سے گیس لیتا ہے تو اس سے دونوں ممالک ایران اور پاکستان کو فائدہ پہنچے گا لیکن وہ معاملہ رکا ہوا ہے، ہم نے اپنے فوجی کبھی بھی ٹریننگ کے لئے انڈیا نہیں بھیجے، پاکستان مسلم ملک ہے، ہم یہاں بھیجتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں کہ اس وقت پاکستان میں ٹیلیویژن کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے، ترکی کے ڈرامے دیکھے جاتے ہیں، ایران کا ٹیلیویژن پاکستانی کیبل پر نہیں ہے، لینڈنگ رائٹس کے لئے کیا ایرانی ادارے پاکستانی پیمرا سے کنٹریکٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک پیشرفت نہیں ہوئی، پیمرا سے بات ہوئی ہے، پیمرا سے اجازت بھی ملی ہوئی ہے، اجازت کے بعد بھی کام رکا ہوا ہے، دونوں ملکوں کے افسران آپس میں بات کریں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔
رپورٹ: ایس ایم عابدی