مضامینہفتہ کی اہم خبریں

عراقی قوم کی بصیرت کا کڑا امتحان

تحریر: ابن حسن

چند دن قبل ہم نے عراق میں مظاہروں کے پیچھے بیرونی سازش کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ ہم نے کہا تھا کہ عراق میں موجود جینوئن معاشی اور انتظامی مسائل کیوجہ سے ہونے والے مظاہروں پر دشمن نے موج سواری کرنا چاہی ہے، ہم نے کہا تھا کہ دشمن موجودہ عراقی حکومت کی خارجہ پالیسی سے نالاں ہے، لہذا وہ ہر ممکنہ طریقے سے موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا اور موجودہ بحران اسی سازش کی کڑی ہے۔ بعض دوستوں نے اس وقت ہمیں آڑے ہاتھوں لیا۔ بی بی سی اور العربیہ کے پروپیگنڈہ کے شکار ان دوستوں نے ان مظاہروں کو عراقی عوام کے سیاسی شعور کے ارتقاء سے تعبیر کیا اور جیسا العربیہ کہہ رہا تھا، اسے قیام عراق اور ناجانے کیا کیا خوش نما اصطلاحات سے نوازا۔ ان دوستوں کی ایک دلیل یہ تھی کہ عراقی سیاسی و مذہبی قیادت ان مظاہروں کو سازش قرار نہیں دے رہی، انہیں اس بات پر تعجب ہو رہا تھا بلکہ ہماری عقل و دانش پر شک ہو رہا تھا کہ ہم ان مقدس مظاہروں میں بیرونی ہاتھ کیوں تلاش کر رہے ہیں۔

اب جبکہ عراق میں مظاہروں کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا ہے۔ مظاہرین کے اہداف اور انداز کافی حد تک واضح ہوچکا ہے۔ عراقی حکومت سمیت مذہبی و سیاسی قیادت نے کھل کر بیرونی ہاتھ کی مذمت کرنا شروع کر دی ہے، نام نہاد مظاہرین عوامی اور سرکاری املاک، سیاسی مخالفین کے دفاتر اور سرکاری و سیاسی کارکنوں کی جان و ناموس پر حملہ آور ہو رہے ہیں، سرکاری اہلکاروں کو اغوا کیا جا رہا ہے، عراق میں موجود غیر ملکی زائرین کی بسوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، داعشی قیدیوں کو چھڑوانے کے لئے جیلوں پر حملے ہو رہے ہیں، عراق میں قائم غیر ملکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو جلایا جا رہا ہے، مذہبی مقدسات کی توہین کی جا رہی ہے۔

خلاصہ یہ کہ دشمن نے عراقی بحران کو تقریباً اس مرحلے میں داخل کر دیا ہے، جس کا ہم نے چند دن پہلے خدشہ ظاہر کیا تھا، یعنی دشمن عراق کے گلی کوچوں کو میدان جنگ بنانا چاہتا ہے، دشمن عراق میں خانہ جنگی کا خواہاں ہے، کہا جا رہا ہے اس کام کے لئے دشمن نے تین طرح کے لوگ بھرتی کئے ہیں، سابق عراقی آمر صدام کی بعث پارٹی کی باقیات، مذہبی منحرف اقلیت صرخیوں کو اور قوم پرستوں کو۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ داعشی عناصر کو بھی بھرتی کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے حکومت کی جانب سے طاقت کا استعمال ناگزیر ہے۔ عراقی وزیراعظم نے انسداد دہشت گردی فورس اور دیگر اہم سکیورٹی اداروں کو اس حوالے سے ضروری احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ طاقت کے جواب میں طاقت کا استعمال خون خرابے پر منتہی ہوگا اور یہ دشمن کا وہی ہدف ہے، جس کے تحت اس نے لوگوں کو ان مظاہروں پر اکسایا تھا اور پھر ان پر موج سواری کی۔

عراقی عوام شاید بھول جائے لیکن عراق کے حالات و واقعات پر نظر رکھنے والے غیر جانبدار لوگ یہ بات کبھی نہیں بھول سکتے کہ جب داعش کے درندے بغداد سے صرف 35 کلومیٹر کے فاصلے پر تھے، جب بعض خائن عراقیوں کی خیانت کے سبب ابوبکر بغدادی نے موصل کی جامع مسجد سے نام نہاد خلافت کا اعلان کیا تھا، جب داعش نے بغدادی کی بیعت نہ کرنے والے تمام عراقیوں کی جان، مال اور ناموس کو داعشی جہادیوں پر حلال قرار دے دیا تھا، اس وقت عراق کے چند غیرت مند بیٹے سر پر کفن باندھ کر اٹھے تھے۔ عراق کے پاس سرکاری فوج تھی نہ اسلحہ، عسکری قیادت تھی نہ جنگی ساز و سامان۔ چند دن قبل ہی سپاہِ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے بتایا ہے کہ ہم اس نابسانی کے عالم میں عراقی حکومت کی درخواست پر عراق پہنچے۔ پہلا چیلنج مقدس مقامات کا دفاع تھا اور دوسرا عراقی عوام کی جان و مال کا تحفظ۔ قاسم سلیمانی کے بقول ہم نے عراقیوں سے فوج اور اسلحہ کا پوچھا تو جواب نہ میں تھا، کیونکہ امریکہ نے عراق پر حملے کے بعد عراقی فوج ختم کر دی تھی، نئی بھرتی شدہ فوج تربیت یافتہ تھی نہ منظم۔ قاسم سلیمانی کے بقول عراقی مذہبی و سیاسی قیادت نے کہا ہم فوری طور پر صرف رضاکار بھرتی کرسکتے ہیں، اسلحہ، تربیت اور جنگ کی قیادت کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔

قاسم سلیمانی کے بقول رات 12 بجے میں نے لبنان کال کی، مکتبِ اہلبیت کے عظیم فرزندانِ لبنان سے کہا 100 تجربہ کار کمانڈروں کی فوری ضرورت ہے، دیر ہوئی تو 61 ہجری دہرا دیا جائے گا، عراق کی سرزمین پر موجود خاندان نبوت کی قبور محفوظ رہیں گیں، نہ عراقی بیٹیوں کی عزتیں، بغدادی کے درندوں کی بیعت نہ کرنے والوں کی جان محفوظ ہوگی نہ ناموس، کربلا میں کربلا تکرار ہو جائے گی، لبنان سے کمانڈر بلوانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ عراقی صرف عربی جانتے تھے، لہذا ان سے کمیونیکیشن کسی غیر عرب کے لئے انتہائی مشکل تھا۔ سلیمانی کے بقول حزب اللہ کے کمانڈرز کو راتوں رات جگایا گیا اور خصوصی طیارے کے ذریعے صبح کی پو پھوٹنے سے پہلے عراق بھیجا گیا۔ عراق کی مذہبی قیادت نے داعش کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا، عراقی جوان اہل وطن کی جان و مال کے تحفظ کی غرض سے جوق در جوق بھرتی ہوئے، لبنانی اور ایرانی جنگی ایڈوائزرز نے عراقی حکومت کی درخواست پر انہیں تربیت دی اور داعشی درندوں کے خلاف جنگ کو منظم کیا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ داعشی فتنے کو مکتبِ اہلبیت کے عظیم سپوتوں کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ عراقی عوام کی جان مال اور ناموس کو داعشی درندوں سے محفوظ بنا لیا گیا، اس دوران کچھ عظیم داستانیں رقم ہوئیں، کچھ عظیم فرزندانِ عراق نکھر کر سامنے آئے، عراقی عوام کا ایک مقاومتی تشخص بنا، ملتِ عراق کی بیداری نے دیگر اقوام کو حوصلہ دیا۔

اس وقت عراق کے جو چند عظیم فداکار بیٹے داعشی درندوں کے خلاف جنگ کی قیادت کرتے نظر آئے، ان میں سے بعض کو کل نام نہاد مظاہرین نے زد و کوب کیا ہے، ان کے گھروں پر حملہ کیا ہے، نام نہاد مظاہرین نے ان میں سے ایک والسیام العلیاوی اور اس کے بھائی کو پہلے زخمی کیا اور پھر ایمبولینس پر حملہ کرکے وحشیانہ طریقے سے انہیں شہید کر دیا، ان کو شہید کئے جانے کی ویڈیو انتہائی دردناک ہے، شاید شئیر نہ کرسکوں، لیکن اس عظیم انسان کی ایک تصویر لگا رہا ہوں کہ جس میں والسیام العلیاوی موصل میں داعش کے محاصرے میں گھرے بچوں میں سے ایک معصوم بچے کو نکال کر بھاگ رہا اور اطراف سے گولیوں

کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ ابھی جب میں یہ پوسٹ لکھ رہا ہوں، حشد الشعبی کے ایک اور کمانڈر ابو عزرائیل کو مظاہرین کے روپ میں چھپے داعشی اور بعثی درندوں نے زخمی کرکے گرفتار کر لیا ہے، ان کی سلامتی کی دعا ہے۔ یہ لوگ ملتِ عراق کے محسن ہیں، دشمن ملتِ عراق کو اپنے محسنوں کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتی ہے، بعض کی بے بصیرتی اس امر میں دشمن کی مدد کر رہی ہے اور یہی وہ سازش تھی، جس کی طرف چند دن پہلے سے ہم اشارہ کر رہے تھے، لیکن بعض لوگ ناجانے کس علم و بصیرت کے زعم میں کیا کیا کہے جا رہے تھے۔

عراق ایک انتہائی خطرناک بحران کی طرف بڑھ رہا ہے، اگر عراقی سیاسی و مذہبی قیادت اور عوام نے بصیرت کا مظاہرہ نہ کیا تو عراق بہت جلد خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے، سیاسی طور پر انتہائی کمزور ریاست بری طرح سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوسکتی ہے۔ عراقی عوام کی مقاومت کے باعث بدترین شکست سے دچار ہونے والا دشمن داعش کی صورت میں واپس پلٹ سکتا ہے، شیطانِ بزرگ امریکہ جو پہلے ہی عراقی نظام کو جکڑ کر بیٹھا ہے، مزید پنجے گاڑ اور اپنے ناپاک وجود کو طول دے سکتا ہے۔ ایک بزرگوار کل فرما رہے تھے، ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، وہ آزمائشوں کا جہان ہے، آزمائشوں سے گزر کر کندن بن کر ہی ظہور حضرتِ حق کے لئے کوئی کردار ادا کیا جا سکتا ہے اور عراقی قوم اس وقت ان آزمائشوں میں سے ایک بڑی آزمائش سے روبرو ہے، جن سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد ہی کوئی قوم ترقی و خوشحالی کے زینے طے کرسکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button