مضامین

میلاد منانا بدعت ہے؟

شیعہ نیوز:شیعیت نیوز : جیسے ہی ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے تو ایک مخصوص گروہ کی جانب سے تمام مسلمانوں پر بدعت اور شرک کے فتوے لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہی گروہ خود کو توحید وقرآن کا سب سے بڑا حامی قرار دیتے ہوئے پوری مسلم امہ کو مشرک ٹھہراتے ہیں۔کہتے ہیں کہ یہ میلاد تو اسلام میں نہیں تم کیوں مناتے ہو؟کیا یہ خود نبی مکرمﷺ نے منایا؟ یا انکے اصحابؓ نے منایا؟ جو تم منا رہے ہو!! یہ بدعت اور شرک ہے۔

آپ اگر ان باتوں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ دین اور دینداری کے بارے میں کتنی ناقص سوچ ہے کیونکہ ان لوگوں کے مطابق دیندار ہونا یعنی ساڑھے چودہ سو سال پہلے والے عربوں کا رنگ ڈھنگ اپنانا یا انکے مطابق کوئی بھی چیز اس وقت مذہبی یا دینی ہوگی جب وہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے عرب معاشرے میں پائی جاتی ہو!!آپ نے دیکھا کہ یہ دقیانوسی سوچ دین کا کیسا تصور پیش کررہی ہے۔ اگر دین یہ چاہتا ہے تو پھر کونسا شخص چاہے گا کہ خود کو پرانے کلچر میں ڈھالے؟!یا کونسا معاشرہ چاہے گا کہ خود کو اتنا پیچھے لیکر جائے؟

دین اور دینداری کا مقصد یہ ہے کہ عربوں کی روایات اور رسموں پر عمل پیرا ہونے کے بجائے اصل دینی اور اسلامی تعلیمات کو اپنایا جائے ؛جیسے دینی تعلیمات میں ہے کہ مہمان کی عزت اور تعظیم کرو۔اب اسکا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ مہمان کی عزت انہی رسومات کے مطابق کی جائے جو پرانے عرب معاشرے میں تھیں بلکہ اس کامقصد یہ ہے کہ مہمان کی عزت ہونی چاہیے اب رسم ورواج جو بھی ہوں البتہ صرف اس چیز کا خیال رکھاجائے وہ رسوم ورواج ،دینی تعلیمات کے مخالف اور منافی نہ ہو،یعنی حرام نہ ہوں باقی جو بھی طریقہ اپنایا جائے وہی درست ہے اور دینی حکم پر عمل ہوجائے گا۔اسی طرح دین اور قرآن کہتا ہے کہ ہمیں پیغمبر اکرمﷺ کی تعظیم کرنی چاہیے:

فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوه
ُترجمہ: پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا احترام کیا۔(سورہ اعراف آیت157)
اس آیت کریمہ میں مومنین کی اس بات پر تعریف کی جارہی ہے کہ وہ رسول اکرمﷺ کی تعظیم و توقیر کرنے والے تھے۔اسی طرح دیگر آیات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی عزت ہر دیندار انسان کی ذمہ داری ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نے تعظیم وتوقیر کا کوئی خاص طریقہ معین کیا ہے؟اسکا جواب یہ ہے کہ اسلام نے تعظیم کرنےکا کوئی خاص طریقہ کار متعارف نہیں کرایا بلکہ ہروہ طریقہ جس سےرسول اکرمﷺ کی تعظیم ہوسکتی ہو، درست ہے۔پس یہ میلاد منانا اور محفلیں سجانا کیا ہے؟اسی تعظیم کا ایک طریقہ کار ہے۔محفل میلاد میں مومنین خوشی کا اظہار کرتے ہیں،مٹھائی بانٹتے ہیں ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں آنحضرتﷺ کے شمائل اور اوصاف بیان کرتے ہیں اور انہیں شعرو نثر میں نشر کرتے ہیں۔کسی بھی عقلمند انسان سے پوچھیں کہ کیا یہ طریقہ عقلی اور فطری نہیں ہے؟پیغمبر اکرمﷺ کی تعظیم کے واقعہ کو اس نظر سےبھی دیکھیں کہ جو لوگ حضورﷺ کے ساتھ تھے وہ تو اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے تھے،اب ہم مسلمان جو ظاہری طور پر رسول اکرم ﷺ کے حضورمیں جانے سے محروم ہیں کس طرح اظہارِ محبت کریں؟اس کے لیےکئی طریقے ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک طریقہ میلاد کی محافل کا منعقد کرنا ہے۔اس میں شرک کہاں ہے؟کونسی بدعت ہے؟ بلکہ یہ محبت کا اظہار، عینِ دین ہے۔سیرت نبویؐ کے بیان کرنے سے دینی تعلیمات کوزندہ کرنا ہے۔بلکہ سچ یہی ہے کہ یہ محفل میلاد تو اس آیت کریمہ :

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَك
َترجمہ: اور آپ کے ذکر کو بلند کردیا۔(سورہ انشراح، آیت 4) کا علمی روپ ہے ۔اس آیت کا جلوہ ہے۔
واقعی تعجب ہوتا ہے ایسی سوچ رکھنے والوں پر جو عید میلادالنبیؐ کی محافل کو بدعت کہتے ہیں۔قرآن میں تو ارشاد ہو رہا ہے کہ جب ایک نبیؑ نے دعا مانگی اور انکے حواریوں کے لیے آسمانی دسترخوان اور غذا نازل ہوئی تو اسے گزشتہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے عید قرار دیدیا۔اس آیت پر غور فرمائیں:

قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّـهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِين
ترجمہ: عیسٰی بن مریم نے کہا خدایا پروردگار !ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے کہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہوجائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے۔(سورہ مائدہ ،آیت 114)
نعوذباللہ کیا پیغمبر اکرمﷺ کی قدر و قیمت اس آسمانی دسترخوان سے بھی کم ہے؟!اس آسمانی مائدہ(غذا)کے نزول پر تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام عید کا اعلان کریں اور پیغمبر اکرمﷺ جن کی ذات خود خدا کی عظیم نعمت ہے،آیت کبری(سب سے بڑی نشانی)ہےانکے آنے پر اگر عید کا اعلان کیا جائے تو بدعت بن جائے؟؟!!

محترم قارئین!ہمیں دین کے بارے میں اس غلط سوچ سے دوری اختیار کرکے عاقلانہ سوچ اپنانی چاہیے اور رسول خداﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر اپنی خوشیوں کا اظہار کرنا چاہیے اور آنحضرتؐ کی نسبت اپنی کمالِ محبت کا اظہار کرنا چاہیے۔یہی دین ہے۔

تحریر:مولانا وسیم رضا سبحانی

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button