دنیا

اسرائیل اندرونی اختلافات کا شکار ہوکر نابود ہوجائے گا

شیعہ نیوز:عدالتی اصلاحات کے منصوبے پر اندرونی اختلافات اور مظاہروں کو فوری ختم کرکے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا ورنہ اسرائیل اندرونی اختلافات کا شکار ہوکر نابود ہوجائے گا۔

سابق صہیونی وزیراعظم نے نتن یاہو کی پالسییوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ تل ابیب اپنی بنیادی اقدار کو آہستہ آہستہ کھورہا ہے لہذا نتن یاہو کے خلاف احتجاج کیا جائے۔

انہوں نے صہیونی ٹی وی چینل 13 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی اسرائیل کو چاہتا ہے، نتن یاہو کے خلاف کھڑے ہوجائے۔ موجودہ کابینہ اسرائیل کے حقیقی آرمانوں کی نمائندگی نہیں کررہی ہے لہذا اس کابینہ کو برخاست کرنے کی ضرورت ہے۔

اولمرٹ نے مزید کہا کہ نتن یاہو اور صدر جوبائیڈن کے درمیان ملاقات ہوجائے تو بھی اس کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ امریکی صدر نتن یاہو کے ورغلانے پر ایران کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کریں گے۔ اس ممکنہ ملاقات سے صرف نتن یاہو کو سیاسی فائدہ ہوگا اور ان کی سیاسی حیثیت مزید مستحکم ہوگی۔ میرے خیال امریکہ کو نتن یاہو کی حمایت نہیں کرنا چاہئے اور صدر بائیڈن بھی نہیں چاہتے ہیں کیونکہ ابھی تک نتن یاہو کو رسمی طور پر دورے کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔

سابق وزیر اعظم نے موجودہ بحران کو اسرائیل کے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ بحرانوں اور آج کے بحران میں بنیادی فرق ہے جس کی وجہ سے تل ابیب کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ سال عبرانی ذرائع ابلاغ نے ایہود اولمرٹ کے حوالے سے رپورٹ دی تھی کہ اسرائیل ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر کوئی فوجی کاروائی کی بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ اس سے پہلے ایہود اولمرٹ نے عالمی حکومتوں سے اپیل کی تھی کہ نتن یاہو کی کابینہ پر پابندی عائد کریں۔ نتن یاہو جمہوریت کے دشمن ہیں اور آخر میں اسرائیل کو نابود کرکے چھوڑیں گے۔

انہوں نے نتن یاہو کو سرکاری دورے کی دعوت دینے سے گریز کرنے پر امریکی صدر کا بھی شکریہ ادا کیا تھا۔

صہیونی حکام وقتا فوقتا نتن یاہو حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ صہیونی افواج کی مشترکہ کمان کے سابق سربراہ گاڈی آئزنکوت کہا تھا کہ اسرائیل کے خلاف انتہائی خطرناک رخ اختیار کررہے ہیں۔ 1973 کے بعد سب سے زیادہ آج اسرائیل کا وجود خطرے میں ہے۔ عدالتی اصلاحات کے منصوبے پر اندرونی اختلافات اور مظاہروں کو فوری ختم کرکے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا ورنہ اسرائیل اندرونی اختلافات کا شکار ہوکر نابود ہوجائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button