
اسرائیل کے ہاتھوں تعلیمی نظام کی تباہی جنگی جرم اور نسل کشی کے مترادف ہے، اقوام متحدہ
شیعہ نیوز: اقوام متحدہ کے زیرنگرانی قائم بین الاقوامی آزاد تحقیقاتی کمیشن نے مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے متعلق اپنی تازہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ میں تعلیمی نظام، ثقافتی اور مذہبی مراکز کی تباہی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف سنگین جرم، یعنی نسل کشی، کے زمرے میں آتی ہے۔
کمیشن کی سربراہ نافی پیلے نے اس اندوہناک حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ “ہم ایسے ناقابلِ تردید شواہد دیکھ رہے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینی زندگی کو منظم طریقے سے مٹانے کی مہم چلا رہا ہے”۔
انہوں نے خبردار کیا کہ قابض اسرائیل کی طرف سے فلسطینی قوم کی تعلیمی، ثقافتی اور مذہبی زندگی کو نشانہ بنانا نہ صرف موجودہ نسل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل اور ان کے حقِ خودارادیت پر بھی کاری ضرب ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف لاس اینجلس سے نیویارک تک مظاہروں میں شدت
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ قابض اسرائیل نے فضائی بمباری، گولہ باری، آگ لگانے اور دانستہ مسمار کرنے کے ذریعے غزہ میں 90 فیصد سے زائد سکولوں اور جامعات کو تباہ کر دیا ہے۔
کمیشن کے مطابق یہ منظم تباہی ایسے حالات پیدا کر چکی ہے جہاں نہ تو بچوں اور نوعمر طلبہ، کے لیے تعلیم ممکن رہی ہے نہ ہی اساتذہ کے لیے روزگار کا کوئی ذریعہ باقی بچا ہے۔ غزہ کے 6 لاکھ 58 ہزار سے زائد بچے گزشتہ 21 ماہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ قابض اسرائیلی افواج نے تعلیمی اداروں پر جان بوجھ کر حملے کیے، جن میں عام شہری شہید ہوئے۔ یہ حملے براہِ راست جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جن اسکولوں اور مذہبی مقامات پر بے گھر فلسطینی شہریوں نے پناہ لی، ان پر بھی حملے کیے گئے اور یوں ان کے قتلِ عام کے ذریعے قابض اسرائیل نے ایک اور سنگین جرم کا ارتکاب کیا ۔
یہ تباہ کن مظالم ایسے وقت میں جاری ہیں جب سنہ2023ء کے 7 اکتوبر سے قابض اسرائیل امریکہ کی کھلی سرپرستی میں، غزہ میں منظم نسل کشی میں مصروف ہے۔ اس قتل عام میں بے شمار معصوم جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اب تک 1 لاکھ 82 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، 11 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور خوراک کی سنگین قلت کے باعث سینکڑوں بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔