جامع ایٹمی معاہدے میں واپسی دشوار ہے، جو بائیڈن
شیعہ نیوز:امریکہ کے منتخب صدر جو بائیڈن نے ایک بار پھر جامع ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ملکی پالیسی میں تبدیلی کا عزم ظاہر کیا ہے تاہم اسے انتہائی دشوار کام بھی قرار دیا ہے۔
جوبائیڈن نے نیویارک ٹائمز کے معروف صحافی تھامس فریڈ مین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایٹمی معاہدے میں واپسی کے عنوان سے تیرہ ستمبر کو سی این این کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مقالے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ بائیڈن نے مذکورہ مقالے میں دعوی کیا تھا کہ اگر ایران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کردے تو امریکہ بھی اس معاہدے میں واپس آجائے گا اور تہران کے خلاف عائد پابندیاں ہٹالی جائیں گی۔
جوبائیڈن اور ان کی نیشنل سیکورٹی ٹیم کا نظریہ یہ ہے کہ جیسے ہی ایٹمی معاہدے کے دونوں فریقوں یعنی تہران اور واشنگٹن کی جانب سے اس معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع ہو، ویسے ہی ایران میں نیوکلیئر فیوژن میں استعمال ہونے والے مواد کی تیاری کی مہلت بڑھانے اور تہران کے علاقائی کردار کے بارے میں فریقین کےدرمیان مختصر مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب فرانسیسی وزارت خارجہ نے یورپی ملکوں کی جانب سے جامع ایٹمی معاہدے کے حوالے سے کی جانے والے عہد شکنی کی طرف کوئی اشارہ کیے بغیر دعوی کیا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکہ کی آئندہ حکومت کی نظر ثانی کے لیے ایران کا ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کرنا ضروری ہے۔العربیہ ٹیلی ویژن سے انٹرویو میں فرانسیسی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی علیحدگی اور یورپ کی عہدشکنی کا ذکر کیے بغیر کہا ہے کہ جامع ایٹمی معاہدے کا دائرہ وسیع کرنے اور اس میں نئی شقوں کے اضافے کی ضرورت ہے۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی پر مشتمل یورپی ٹرائیکا نے امریکی ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کے بعد اس معاہدے کے تحت ایران کے اقتصادی مفادات پورے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔مذکورہ ممالک نے ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کی زبانی اور سیاسی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بیانات ضروری جاری کیے لیکن اس معاہدے کو باقی رکھنے کے لیے کوئی عملی اقدام انجام نہیں دیا۔ایران نے یورپی ملکوں کی عہد شکنی کے جواب میں ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں بتدریج کمی کا آغاز کیا تھا جس پر پانچ مرحلوں میں عملدرآمد کیا گیا۔
ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے تحت ایران کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ فریق مقابل کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی یا عہدشکنی کی صورت میں اس معاہدے پر مکمل یا جزوی طور پر عملدرآمد روک سکتا ہے۔ایران واضح طور پر اعلان کر چکا ہے کہ پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی معاہدے میں مندرج مفادات پورے ہونے کی صورت میں تہران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کردے گا۔