مضامینہفتہ کی اہم خبریں

محمد بن سلمان نے سعودی عرب کو غیر محفوظ بنا دیا

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سعودی عرب کے 80 سالہ شاہ سلمان نے اپنے ملک کی زمام اپنے فرزند محمد بن سلمان کو سونپ رکھی ہے۔ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک محمد بن سلمان ہی ہیں۔ محمد بن سلمان کو یہ اختیار اس لئے دیا گیا کہ وہ ملک کو جدید خطوط پر استوار کرکے ترقی دینے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ شاہ سلمان کو بھی ان کی صلاحتیوں، مغربی حکمرانوں کیساتھ رابطوں اور اچھی انگریزی بولنے پر یہ توقع ہوگئی تھی کہ محمد بن سلمان سعودی عرب کو ایک مضبوط ملک بنا دیں گے، مگر شاہ سلمان کی امیدیں محض امیدیں ہی رہیں، محمد بن سلمان کی مغربی دنیا میں مقبولیت جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ڈاون ہوگئی, جبکہ سعودی عرب میں ان کے جدید رجحانات نے اسلامی اقدار کو پامال کیا تو سعودی عوام میں بھی ان کیلئے ’’احترام‘‘ ختم ہوگیا۔ اس وقت محمد بن سلمان کی شخصیت خلا میں کھڑی ہے۔ وہ سعودی عرب کا دفاع مضبوط کرسکے، نہ ہی سعودی عرب کو مغرب کی نظر میں کوئی بہتر مقام دلا سکے۔

ٹرمپ نے بھی سعودی عرب کیساتھ امریکہ کے براہ راست تعلقات رکھنے کی بجائے اپنے داماد کو آگے کیا اور محمد بن سلمان کے اپنے داماد جیرڈ کشنر کیساتھ تعلقات بنوا دیئے۔ جیرڈ کشنز نے امریکہ کی بجائے اسرائیل کیلئے زمینہ سازی کی اور سعودی عرب کو اپنے مفاد کیلئے بھرپور استعمال کیا۔ اب محمد بن سلمان کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ یہودی النسل جیرڈ کشنر نے اس کیساتھ دوستی اپنے مفاد کیلئے کی تھی۔ دوسری جانب نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی سعودی عرب کے حوالے سے پالیسی پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ اس سے بھی محمد بن سلمان کو پریشانی کا سامنا ہے۔ جو بائیڈن محمد بن سلمان کی بجائے براہ راست شاہ سلمان کیساتھ تعلقات کے خواہاں ہیں۔ اس سے بھی سعودی عرب عرب میں ایک تبدیلی آئے گی۔

شاہ سلمان اس وقت 80 سال کے پینڈے میں ہیں۔ ان کی طبعیت بھی ناساز رہتی ہے۔ شائد جو بائیڈن چاہتے ہوں کہ شاہ سلمان کیساتھ ہی معاہدے کئے جائیں، تاکہ اگر وہ نہیں رہتے تو معاہدوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں گے۔ اس کے علاوہ بھی سعودی عرب کے آل سعود خاندان میں اندرونی طور پر بھی بغاوت کا سلسلہ جاری ہے۔ محمد بن سلمان نے بہت سے شہزادوں کو قید کر رکھا ہے، کئی ملک سے فرار ہوچکے ہیں اور بیرون ملک رہ کر محمد بن سلمان کیخلاف اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ محمد بن سلمان کے دور میں لاپتہ کیے گئے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ سلسلہ شاہی خاندان کے افراد تک بھی پہنچا، جہاں 79 برس کے شہزادہ عبدالعزیز، جو سعودی عرب کے بانی کے بیٹے بھی ہیں، کو بھی گذشتہ سال گرفتار کیا گیا اور ان پر بغاوت کا مقدمہ چلا۔ سابق ولی عہد اور وزیر داخلہ محمد بن نائف، جنھیں 2000ء میں القاعدہ کو شکست دینے کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے، کو بھی الگ تھلگ کر دیا گیا۔

یہ خبر بھی پڑھیں پاکستان میں خمینی ازم کا پرچار

جو بائیڈن نے سعودی عرب کی یمن کیخلاف جاری جنگ میں بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اس کا بھی سعودی عرب کو نقصان ہوگا، جبکہ سعودی عرب کے مقابلے میں یمن کے حوثی مزید مضبوط ہوچکے ہیں۔ حوثیوں کی جانب سے جتنے بھی حملے ہوئے ہیں، وہ موثر اور کاری وار ثابت ہوئے ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب کے قطر کیساتھ تعلقات بہتر ہوچکے ہیں، جس کا امریکہ کو دکھ ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ سعودیہ اور قطر ایک پیج پر آئیں۔ اس سے بھی امریکہ کی ناراضگی واضح ہے۔ سعودی عرب کو یہ بھی خطرہ ہے کہ امریکہ کہیں خلیج سے اپنا بحری بیڑہ نہ نکال لے۔ جیسا کہ ایران کی جانب سے ’’انتقام سخت‘‘ کی دھمکی کے بعد امریکہ خطے سے اپنے پاوں سمیٹ رہا ہے اور بعید نہیں کہ وہ خلیج کو بھی خالی کر دے۔ امریکہ کی خلیج سے روانگی سے سعودی عرب اپنے دفاع کو کمزور سمجھے گا، جبکہ اس طرح ہونے سے ایران کا دفاع مزید مضبوط ہو جائے گا۔ جو بائیڈن نے سعودی عرب اور یو اے ای کیساتھ اسلحہ فراہمی کا معاہدہ بھی منسوخ کر دیا ہے۔ جس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ ان معاہدوں کا از سرنو جائزہ لے گی اور اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ ان معاہدوں کو قائم رکھنا ہے یا ختم کر دینا ہے۔

سٹاک ہوم انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ ریسرچ کے مطابق 2015ء سے 2019ء تک سعودی عرب اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ امریکہ اس اسلحے کا بڑا حصہ فروخت کرنیوالا بڑا ملک ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے مغرب سے خریدے جانیوالے اسلحے، جس میں برطانوی اسلحہ بھی شامل ہے، کو یمن جنگ میں استعمال کیا گیا۔ اب امریکہ کی جانب سے اگر رویئے میں تبدیلی آتی ہے تو اس سے محمد بن سلمان کیخلاف سعودی عرب میں بغاوت پھوٹ سکتی ہے۔ یہ بغاوت اسلام پسند طبقے کی جانب سے ہوگی، جو محمد بن سلمان کی جدید پالیسیوں، جوئے خانوں، سینماز اور فحاشی و عریانی کے اڈوں کیخلاف دبے دبے انداز میں احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ محمد بن سلمان چین اور روس کیساتھ بھی رابطے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ محمد بن سلمان سمجھتے ہیں کہ روس اور چین ایسے ممالک ہیں، جو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ دوسرے لفظوں میں اگر سعودی عرب کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس سے چین اور روس کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جبکہ امریکہ کی حکومت اگر مصلحتاً خاموش بھی رہے تو عوامی حلقوں سے آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں، جس سے امریکی حکومت مجبور ہو کر ان خلاف ورزیوں پر احتجاج کرتی ہے۔

امریکہ کی نظر میں ویسے تو مسلمانوں کیخلاف ہونیوالی کوئی بھی سازش بُری نہیں ہوتی، مگر اس میں امریکہ کا مفاد ہو تو ظاہری طور پر امریکہ مظلوم کا حامی بننے کی ایکٹنگ کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ اس وقت سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے اقتدار کی کشتی ہچکولوں میں ہے۔ یمن کی جانب سے اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ ایران کے خوف سے آہستہ آہستہ خطے سے بھاگ رہا ہے۔ پیچھے سعودی عرب کو تنہائی دکھائی دے رہی ہے، جس نے محمد بن سلمان کو بہت پریشان کر رکھا ہے۔ محمد بن سلمان کی جدیدیت نے جہاں اس کے اقتدار کو خطرے میں ڈال دیا ہے، وہیں آل سعود کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے اور مستقبل میں سعودی عرب میں ایک بڑی تبدیلی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس انقلاب کو محمد بن سلمان روک پاتے ہیں یا اس کی لہروں کا خود شکار ہو جاتے ہیں۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button