حسین عصر(عج) کا ناصر_شہید علی ناصر صفوی
تحریر:سیدہ مشعل زہراء
نہیں معلوم کب بن جائے میرا بدن نشانہ
قدم قدم پہ یہاں بے نشان مقتل ہے
خدا کا گھر ہو یا میرا مکاں، مقتل ہے
_میرے لیے تو سارا جہاں مقتل ہے۔
سلگتے دل،نم آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں میں سسکتے قلم کے ساتھ آج ایک ایسے شہید کی شجاعت ، دلاوری و حسینی زندگی رقمطراز کر رہی ہوں جو ملت تشیع کے انجمن کا روشن ستارہ ہے ،جو کردار کے غازیوں کے نشیمن میں وہ برگ ہے جسکے کردار کی خوشبو پا کر بادصبا ناز کرتی ہے ۔وہ جس کا کردار اور نام ان شھدا میں شامل ہے جو ارض و سماء کی ندا پہ لبیک کہہ اٹھے اور قرب و رضائے خدا کی ادا پر جانثار ہوئے۔
وہ شہید جس نے عہد وفا کے نام پر حیدریوں کیلیے ایک ایسا ربط باندھا ہے جو انکو مثل زہیر ابن قین سید الشھداء کے اصحاب میں شامل ہونے کا درس دیتا ہے۔اس بے ثبات دنیا کے ایسے گمنام شھدا جو کسی کہکشاں پر روشن ستارے ہوں گے اور آنیوالوں کو اپنے قدموں کی دھول سے بتا رہے ہونگے کہ بقائے خدا ، دوام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ولائے علی (علیہ سلام) پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا جاتا ، چاہے اس راہ میں آپ اور آپکے خانوادے کربلا کے حقیقی مجاہدوں کی طرح مار دیے جائیں۔
کربلا کے انہی حقیقی مجاہدوں کی طرح ایک مجاہد جسکا نام علی ناصر صفوی ہے جو 5 جون 1965 کو ضلع چنیوٹ کے گاؤں بنام ٹھٹھہ محمد شاہ میں پیدا ہوئے۔وہ علی ناصر جو گدائے در محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ جس نے سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احسن طریقے سے اپنے قول و عمل میں شامل کیا۔ بلاشبہ شہید علی ناصر صفوی کی زندگی کا ہر پہلو جوانوں کیلئے درس انقلاب سموئے ہے جیسا کہ شہید علی ناصر کے ماموں چاہتے تھے کہ علی ناصر افسر کے عہدے پر کام کرتے ہوئے کامیاب شہری بنے مگر شہید نے عشقِ خدا کی طرف گامزن ہو کر پروازِ الہی کو اپنا ہدف بنایا اور اس ہدف تک پہنچنے کیلئے دنیا کی کوئی جبر کی تلوار اسکی پرواز کو روک نہیں سکی۔ شہید علی ناصر صفوی اپنے نام کے حقیقی معنیٰ پر اترنے میں کامیاب ہوئے اور عشقِ خدا سے سرشار ہوکر زیست کے سفر میں حقیقی منتظر بنے اور ظہور امام (عج) کی راہ میں غیر معمولی اور ناقابل فراموش زمینہ فراہم کیا ۔ اور تمام تشنہ جوانوں کو اپنی مقنطیسی شخصیت سے عشقِ خدا کی جانب گامزن کیا تاکہ ہر کوئی مثلِ حُر لشکر حسینِ عصر (عج) میں شامل ہوسکے اور آنے والا (عج) آکر ظلم ، فسق و فجور کی جڑوں کو اکھاڑ کر عدل کا علم گاڑھے۔
بچپن سے ہی شہید کا کردار اپنے ہم عمر بچوں سے منفرد اور جاذب تھا۔ ناصر علی صفوی اس سے پہلے کہ شہادت کی موت سے جاوداں حیات کا در کھولنے کی سعادت حاصل کرتا، وہ اپنے کردار میں پختگی،عزم و استقلال،عفت و حیا اور پاکدامنی سے زندہ شہید بنا ۔ ہمیشہ انسان کے مقصدِ خلقت "درد دل” کو اپنے اندر زندہ رکھا اور حُبِ علی(علیہ سلام) و مقصدِ حسین (علیہ سلام) کی ایسی شمع دل میں جلائے رکھی جس سے زندگی حتی کہ شھادت کے بعد بھی آج تک راہ حق کا ہر مسافر مستفید ہو رہا ہے۔ لوگ جسے معمولی شکل و صورت میں شمار کرتے اس نے” کردار اسد الہی و بو ید اللہی” کو اپنے اندر ایسا بسالیا کہ علی ناصر صفوی سے شہید علی ناصر صفوی کی معراج کو پایا۔ اسی باعث علی ناصر سے ملنے والا ہر شخص شہید کی تدبرانہ صلاحیتوں سے متاثر ہو جاتا۔یہ سب اس تقوی و تذکیہ نفس کی کرامتیں تھیں جو سید الشھداء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہید نے اپنائی۔
شہید کا شمار سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے ۔شہید علی ناصر صفوی ملی و سماجی خدمات سر انجام دینے میں ہمیشہ اول دستہ میں شامل رہا۔ حضرت ابالفضل العباس( ع) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی بجز ااس کے کہ انہیں اس کے لیے گرفتاری جیل ،قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ہم اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ حق فتحیاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کیساتھ ہے
علی ناصر صفوی کبھی بھی اپنے ہدف سے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ جب بھی جھنگ کی پولیس یا دشمنانِ ملت نے شہید کی زندگی کا دائرہ تنگ کرنا چاہا شہید نے ہمیشہ بارگاہ خداوندی میں توسل محمد (ص) و آل محمد (ع) سے دعا کی اور ملت کے منتشر اور خوفزدہ جوانوں کو یکجا کرنے میں مشغول رہے ۔اور اسی طرح جھنگ کے فتنہ پرور ماحول میں امن کی فضا گھولنے والا ، ملت کے جوانوں کو اسرار شہنشاہی کی طرف توجہ دلانے والا دشمن کی کسی سازش سے نہ جھکا نہ رکا ۔بیواؤں ، یتیموں مظلوموں کی مدد میں پیش قدم رہے۔راستے کی دوڑ دھوپ اور منزل کی دوری سے کبھی نہ گھبرائے۔ ہر مصیبت کا مردانہ وار مقابلہ کیا ۔گردشِ ایام میں کبھی خدا سے مایوس نہ ہوئے اور دوسروں کو بھی توکل بر خدا کی طرف توجہ دلاتے ،عبادت اتنے پرخلوص انداز میں کرتے کہ علماء بھی خواہش کرتے کہ انکے پیچھے نماز ادا کریں۔ یہ اس دلسوز آواز و خشوع وخضوع کا اثر تھا جو انہوں نے عشقِ خدا و عشقِ شھدا کی طلب میں پایا۔انداز میں ایسا ٹھہراؤ اور ادب شامل تھا جو حسینی مزاج کا آئینہ تھا جس نے یزیدیت کے ڈر کو بھلا دیا اور امریکی و استکباری طاقتوں پر ہمیشہ برائت کا اظہار کیا۔یہاں تک کہ دشمن جب حسینِ عصر (عج) کی عداوت میں مقصدِ حسینی کی ترویج پر شہید کے کردار کی خوشبو کو ملت کی فضا میں بکھرنے سے نہ روک سکا تو مردِ دلاور پر موت کے سایے کا خوف مسلط کرنے لگا ۔ مگر جس نے خدا کی راہ پر قدم بڑھایا ہو وہ کب کہاں دشمن کی گولی سے ڈرا ہے بلکہ ہر اٹھنے والا قدم لاکھوں حسینیوں کو اس راہِ مستقیم و راہِ نجات کی جانب ندادیتا ہے کہ
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
جو خون ہم نے نذر دیا ہے اس زمین کو
وہ خوں ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے گی صبح امن ، لہو رنگ ہی سہی
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
اس عاشق خدا میں تقوی کا یہ عالم تھا کہ شہید بے ثبات دنیا کی رونقوں اور قمقموں میں بے راہروی کا شکار ہونے کی بجائے شب کی آخری ساعتوں میں خدا سے عشق کی تڑپ مانگتے ،شہادت کی سعادت کے حصول کیلئے گریہ و زاری کرتے اور اپنی بچیوں کے ننھے ہاتھوں کو خدا کی بارگاہ میں بلند کروا کر ان سے کمال حقیقی "خدا” کی جانب بلند ترین پرواز کی دعا کرواتے۔آخر دعائیں مستجاب ہوئیں اور علی ناصر صفوی اپنے عشق میں حائل عارضی زندگی کی گمنام فضا کو مسخر کرتے ہوئے شہید علی ناصر صفوی بنے اور ہر دور کے لیے ایک درخشاں گمنام آفتاب بن گئے ۔ جس سے ہر زمانے میں کئی مہتاب منور ہورہے ہیں اور جامد ستاروں کو متحرک کررہے ہیں ۔
لیکن جہاں شہید کی شھادت ماضی ، حال و مستقبل میں بنامِ مصلحت خودی کو بیچ کر شہداء کے خون سے کھیلنے والوں اور اپنے ضمیر کو ابدی نیند سلانے والوں پر تا ظہور سوالیہ نشان ہے وہیں انکی زوجہ شہیدہ پروین بتول ( جنہیں 25 نومبر 2000 کو کمسن بچیوں کے سامنے مثلِ سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا حالتِ حمل میں پہلو پر زخم کھاتے ہوئے بے دردی کے ساتھ علی ناصر صفوی کے ساتھ شہید کیا گیا) اور ان کی والدہ (جنہوں نے بیوگی میں بھی ایسی تربیت کی کہ ملت کے گلزارِ شھدا کو رونق بخشی) کا زینبی و فاطمی کردار آج ان خواتین پر جو اپنے انقلابی جسم و روح کو مشرق و مغرب کی فحاش اور فریبی تہذیب کے حوالے کر کے خود میں موجود ناقابلِ تسخیر و قابلِ رشک صلاحیتوں کو مفلوج و معذور کررہی ہیں سوالیہ نشان ہے !؟ ضمیر کو جھنجھوڑتے ان سوالات کے جوابات فقط آج کے علی ناصر صفوی اور پروین بتول ہیں !؟ کہ وہ کہاں ہیں؟
سلام ہو اس ضعیفہ ماں اور ہمسر کی عظمت پر جنہوں نے اپنا سب کچھ رضائے خداوندی اور ملت کے گلشن کی آبیاری پر قربان کردیا ۔ یہ وہ مائیں ہیں جنہوں نے کربلا کی ماؤں پر نظر کرتے ہوئے صبر کا دامن تھام لیا کہ
ظلم کی یہ تصویر آج بھی نوحہ کناں دکھائی دیتی ہے
کتاب سادہ رہے گی کب تک کبھی تو آغاز باب ہوگا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی کبھی تو انکا حساب ہوگا
بقا کے اصولوں کی جنگ اور شھدا کا لہو آج ملت کے ہر جوان سے سراپا سوال ہے کہ کردار کے غازی کہاں ہیں ؟ جن کو ماتم کدے آواز دے رہے ہیں وہ کہاں ہیں؟ مظلوم و بے کسوں کی نصرت میں اٹھنے والے قدم تعداد میں اب کم نظر کیوں آتے ہیں؟
کیا ہم نے شھدا کے شھادت کے درس کو پس پشت ڈال دیا کیا؟ کیا آج ہم شھدا پر فقط چند کالمز لکھ کر اور ان کا مطالعہ کر کے ملت تشیع و شہدا کی جانب سے سونپی گئی ان عظیم و بھاری زمہ داریوں سے بری ہو سکتے ہیں؟ کہیں ہم بھی اپنے اس عمل سے گفتار کے غازی تو نہیں بن رہے!؟ اگر ایسا ہے تو لمحہ فکریہ ہے کہ شھدا کا لہو آج ہم سے کیا تقاضا کر رہا ہے؟
آج ہمیں اس صدائے حق (عج) "ھل من ناصر ینصرنا ” کو سننے کی ضرورت ہے جو شھدا کے پاکیزہ خون کی آبیاری سے گلشن کا ہر برگ صبح نو امیدی میں دے رہا ہے!!!
مسلم امہ حوادث کے ہے طوفان میں گھری
کشتی نوح کی طرح اب کوئی سفینہ آئے
دین سلامت رہے _ توحید بھی قائم شاید
خون بہتر کا ہی مقتل میں بہایا جائے
کوئی قاسم و عارف، ناصر و نصراللہ جیسا
کوئی نقوی ہی بنا پاؤ کہ امام آجائے