مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

ماہ رمضان المبارک کے لئے نیا قانون، خادم حرمین شریفین نے نماز کی نشریات پر پابندی عائد کر دی

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) خود کو دنیا بھر میں خادم حرمین شریفین کہلانے والے قبیلۂ آل سعود کا حقیقی چہرہ اُس وقت مزید عیاں ہوگیا جب میڈیا میں ٹی وی چینلز پر نماز کو نشر کرنے پر پابندی کی خبریں گردش کرنے لگیں۔

سعودی عرب نے ماہ مبارک رمضان کے پیش نظر ایک نیا آئین نامہ مساجد اور انکے ائمۂ جماعت کے لئے جاری کیا ہے جس میں نماز کو چینلز کے ذریعے نشر کئے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

فارس نیوز نے عکاظ روزنامے کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آل سعود کی وزارت برائے مذہبی امور اور ارشاد و تبلیغ نے بظاہر ماہ مبارک کے پیش نظر ایک خاص آئین نامہ جاری کیا ہے جس میں مساجد کے ذمہ داران اور منجملہ انکے ائمہ جماعت کے لئے خصوصی ہدایات ذکر کی گئی ہیں۔

مذکورہ آئین نامے میں آیا ہے کہ مساجد کے ائمہ جماعت، مؤذین اور دیگر کارکنوں کی ماہ رمضان کے دوران مسجد میں موجودگی لازمی ہے، انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مساجد میں موجود کیمروں کے ذریعے نماز کے دوران امام جماعت یا مامومین کی ویڈیو بنانے سے پرہیز کریں۔

سعودی وزارت کے بیان میں آیا ہے کہ کسی چینل کو نماز نشر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ساتھ ہی مساجد کے ائمہ جماعت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ واجب نمازوں کے بعد ’مفید‘ کتابیں نمازیوں کے لئے پڑھیں اور ایسے موضوعات پر گفتگو کریں جو قومی اتحاد کے لئے مفید ہوں۔

مساجد کے کارکنوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماہ رمضان میں کسی کو روزہ داروں کے افطار کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسکے علاوہ بچوں کو مساجد لے جانے پر بھی اِس بہانے سے پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ یہ عمل دیگر نمازیوں کی تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔

آل سعود خاندان کے کرتوتوں سے پردہ اٹھانے والی ویب سائٹ سعودی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ اس قسم کے اقدامات ولیعہد محمد بن سلمان کے تیار کردہ جامع ترقیاتی منصوبے (وژن ۲۰۳۰) کا حصہ ہیں جس میں ملک کو سیکولرز کی جانب لے جانے اور اسکی ’مذہبی‘ ماہیت کو بتدریج تبدیل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ سعودی لیکس نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ محمد بن سلمان نے حکومتی کابینہ میں وزارتِ اسلامی امور کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ مذہبی نظریات سے متعلق ایک جامع منصوبہ تیار کرے۔

سعودی لیکس کی رپورٹ میں مزید آیا ہے کہ ولیعہد محمد بن سلمان پردے اور عقائد جیسے امور میں آزادی دے کر بقول خود کے ’انتہاپسندی کا خاتمہ‘ کرنا چاہتے ہیں اور اس سے انکی مراد بھی شاید شرابی اور جواری جیسے دین سے منحرف ہونے والے افراد کو سزا سے معاف رکھنا ہے۔

اس کے علاوہ بن سلمان کے حکم سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری پولیس کو سونپ دی گئی ہے اور عوام، علما اور شیوخ کو ان معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔

بن سلمان کے تیار کردہ بظاہر ترقیاتی منصوبے ۲۰۳۰ (ویژن ۲۰۳۰) کے مطابق علما اور دینی امور کے ماہرین کو اس بات کا پابند بنا دیا گیا ہے کہ وہ اہل کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں، البتہ درپردہ صیہونیوں) کے ساتھ تعلقات، موسیقی، شبانہ پارٹیوں، سینما گھروں اور خواتین کی آزادی جیسے موضوعات پر عوام کے لئے گنجائشیں فراہم کریں جس کے نتیجے میں سبھی بالخصوص خواتین، دارالحکومت ریاض سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والی مکس گیدرنگ اور شبانہ پارٹیوں، کنسرٹوں میں بے روک ٹوک شرکت کر سکیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ قبیلۂ آل سعود کے ولیعہد بن سلمان کے تیار کردہ منصوبے کا مقصد ترقی کے نام پر ملکی تاریخ سے آہستہ آہستہ اسلامی طرز فکر کا خاتمہ کر کے وہاں پر سیکولرزم اور دین مخالف افکار و نظریات کو عام کرنا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button