
امام خمینی وقت کی پابندی سے عالمی قیادت تک
تحریر: آغا زمانی
کراچی جعفر طیار سوسائٹی کی ایک پروقار شام تھی، آئی ایس او کا ایک فکری و نظریاتی سیمینار جاری تھا۔ مقررین فکر و شعور کے چراغ جلا رہے تھے، اسی دوران ایک باوقار شخصیت سیاہ عمامہ، پرنور چہرہ اور ٹھہرے ہوئے انداز میں اسٹیج پر جلوہ گر ہوئی۔ یہ تھے میرے چچا حجۃ الاسلام علامہ سید محسن شاہ رضوی مرحوم و مغفور، ایک تجربہ کار عالم، باخبر مبلغ اور علم و تقویٰ کے پیکر۔ آپ نے گفتگو کا آغاز امام خمینی (رح) کی ایک نمایاں خصوصیت سے کیا اور بیان کیا کہ حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ وقت کے پابند ترین انسان تھے۔ نجف اشرف میں جب وہ جلاوطنی کے دن گزار رہے تھے تو علماء و طلاب اپنی گھڑیاں امام خمینی کے درس میں آنے کے وقت سے برابر کرتے تھے۔ ان کے آنے کا وقت اتنا دقیق اور مقرر ہوتا تھا کہ لوگوں کے لیے وہ خود ایک گھڑی کی مانند تھے۔
یہ محض وقت کی پابندی نہیں تھی، یہ اس نظم و ضبط کی علامت تھی، جو ایک عارف، ایک فقیہ اور ایک الہیٰ رہنماء کی شخصیت میں پیوست ہوتا ہے۔ وقت کی اہمیت امام خمینی کی نگاہ میں وہی تھی، جو ایک سچے سالک راہ خدا کی زندگی میں ہونی چاہیئے۔ امام خمینی (رح) صرف ایک فقیہ یا مجتہد نہ تھے، وہ عارفِ کامل، پرہیزگار انسان، سیاسی مدبر اور انقلاب کے معمار تھے۔ انہوں نے تاریخ کے اس دور میں اسلامی انقلاب کا آغاز کیا، جب دنیا پر دو بڑی طاقتوں امریکا اور سوویت یونین کا تسلط تھا۔ ایک عام تصور یہ تھا کہ ان طاقتوں کے بغیر کوئی ریاست، کوئی نظام، کوئی نظریہ پنپ نہیں سکتا۔ لیکن امام نے "لا شرقیہ لا غربیہ، اسلامیہ اسلامیہ” کا نعرہ لگا کر اس استعماری دنیا کو چیلنج دیا اور اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کو پاؤں تلے روند ڈالا۔
امریکہ و اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ان کا شعوری اور اصولی فریضہ تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا دل رقیق، جذبہ نرم اور اخلاق بلند تھا۔ ان کی شخصیت میں فقاہت کے ساتھ فطرت کا جمال بھی شامل تھا۔ ایک مرتبہ امام درس کے بعد جب مدرسہ سے باہر نکلے، تو اپنے پیروں کو زمین پر رکھتے وقت اردگرد کی جوتیوں کو ہٹایا، تاکہ کسی کی چپل یا جوتے پر پیر نہ آجائے۔ شاگرد نے حیرت سے سوال کیا، تو امام نے کہا، "میرے پیر کا گندا ہونا کوئی اہم بات نہیں، لیکن ہم کسی اور کے مال پر تصرف کا حق نہیں رکھتے۔” یہ صرف فقہ کا درس نہ تھا، یہ فقہِ نفس کا عملی مظہر تھا۔
فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں امام خمینی وہ پہلے رہنماء تھے، جنہوں نے صرف تقریریں نہ کیں بلکہ عملی اقدام کرتے ہوئے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو "یوم القدس” قرار دیا۔ یہ دن صرف فلسطین کے لیے نہیں امت کی بیداری، اتحاد اور ظلم کے خلاف عالمی مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ جب امام خمینی سے پوچھا گیا کہ آپ ایران سے باہر ہیں، آپ کی فوج کہاں ہے۔؟ تو امام خمینی نے دھیمی لہجے میں وہ تاریخی جملہ کہا، میری فوج میری ایرانی ماؤں کی گود میں پرورش پا رہی ہے اور وقت نے گواہی دی کہ ٹھیک 15 سال بعد وہی فوج، وہی نسل، وہی فکر ایران میں انقلاب لا چکی تھی۔
آج چھیالیس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، لیکن وہ اسلامی انقلاب اب بھی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں اسی راستے پر گامزن ہے۔ امام خمینی (رح) کے شاگرد اور حقیقی وارث کی حیثیت سے آیت اللہ خامنہ ای نے اس نظام کو فکر، حکمت اور مزاحمت کے ستونوں پر قائم رکھا ہے۔ جب ملعون سلمان رشدی کی شیطانی آیات جیسی گستاخانہ کتاب منظر عام پر آئی تو دنیا بھر کے علماء نے اس کے خلاف فتوے دیئے، مگر جو اثر امام خمینی (رح) کے واجب القتل کے فتویٰ کا ہوا، وہ کسی اور کے فتوے کا نہ ہوسکا۔ دنیا کے کونے کونے میں یہ بات پھیل گئی کہ اسلام اپنے مقدسات پر خاموش نہیں بیٹھے گا۔
اور آخرکار 3 جون 1989ء کا دن آیا۔ حضرت امام خمینی (رح) اپنے رب سے جا ملے، مگر اپنی زندگی کے آخری لمحے میں بھی ان کی زبان پر دعا تھی، ان کے قلم سے وصیت کے آخری الفاظ یہ تھے، "میں پرسکون دل، مطمئن قلب، شادمان روح اور فضل الہیٰ کی آرزو کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں۔ مجھے آپ سب کی دعاؤں کی شدید ضرورت ہے۔” یہ تھے سید روح اللہ موسوی الخمینی رضوان اللہ علیہ، رہبرِ کبیر، عصرِ جدید کے مجدد، مستضعفین کے حامی اور مستکبرین و ظالمین کے دشمن۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم رہبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین (منگل، 3 جون 2025ء/6 ذی الحجہ 1446ھ)