پاکستان امریکہ مخالف مقاومتی بلاک کا حصہ ہے، علامہ امین شہیدی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) اتحاد امت پاکستان کے زیرانتظام آبپارہ سے امریکی قونصلیٹ تک نکالی گئی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے امت واحدہ کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی کا کہنا تھا کہ آج کی اس ریلی کا مقصد دنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ دنیا ایک روشن مستقبل کی طرف جا رہی ہے، جہاں حق کا غلبہ ہوگا اور باطل قوتیں مٹ جائیں گی۔ انہوں نے کہا نام نہاد سپرپاور امریکا اور اس کے اتحادیوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے آج پوری دنیا میں مظلوم قومیں بیدار ہوچکں ہیں اور یہ مظلوم قومیں پچھلی کئی دہائیوں سے نام نہاد سپرپاور امریکا کی جانب سے روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ انہوں نے قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس کی شہادت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ایک فکر کا نام ہے، ابو مہدی مہندس ایک فکر کا نام ہے، افراد ہمیشہ بدلتے رہے ہیں، شہادتوں کا جام نوش کرتے رہے ہیں، لیکن افراد کے جانے سے ظلم اور باطل کے خلاف لڑنے والی یہ تحریکیں نہ رکیں تھی اور نہ رکیں گی، بلکہ ظلموں کے خلاف لڑنے والی تحریکوں سے لاتعلق اور بیگانہ لوگ بھی ان تحریکوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آج کے اس اجتماع میں یہ جو لوگ نکلیں ہیں، ان کی شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس سے کوئی خاندانی رشتہ داری نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ قاسم سلیمانی اور ابو مہندی مہندس کی استعمار اور ظالم قوتوں کے خلاف جو فکر تھی، اُس فکر کے ساتھ وابستہ ہیں، تاہم ظالم قوتیں اور استعمار شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس کی فکر کو روکنا چاہتی ہیں۔ ظالم اور استعمار یہ سمجھتا ہے کہ قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کو مار کر شاید اس نے ظلم اور استعمار کے خلاف اٹھنے والوں کا راستہ روکا ہے، لیکن ان احمقوں کو یہ نہیں پتہ یہ وہ چراغ ہے، جس کو اللہ نے ان شہداء کے خون سے مزید روش کیا ہے۔
انہوں نے پاکستان کے حکمرانوں اور ان کی پالیسیز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مجھے پاکستان کے حکمرانوں کی سوچ اور ان کے اقدامات پر افسوس ہوتا ہے، جنہوں نے انتہائی بے غرتی کے ساتھ ان ممالک کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور سر جھکا دیئے، جو خود امریکی جوتے چاٹ رہے ہیں، اس سے زیادہ شرمندی، ذلت اور پستی کا مظاہرہ اس سے پہلے پاکستان کے کسی حکمران نے نہیں کیا۔ افسوس ہوتا ہے، ایک ایسے موقعے پر جب تاریخ کا انتہائی نازک موڑ تھا، امت مسلمہ کی نمائندہ اور بیدار قوتیں میدان میں تھیں، ایٹمی ملک پاکستان نے کمزور ترین غلام اور شیشے کے گھر میں رہنے والے عرب حکمرانوں کے سامنے اپنی پیشانی رکھ کر یہ بتا دیا کہ نہ ان میں حمیت ہے، نہ قومی ولولہ ہے، نہ زمین کی محبت ہے، نہ اللہ کے دین کی کوئی فکر ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ آج بیدار ہونے کا وقت ہے، ظلم کے خلاف میدان میں اترنے کا وقت ہے، ظلموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پیغام دینے کا وقت ہے۔ یہ یاد رکھیئے کہ ہمیشہ امریکی سامراج نے کوشش یہ کی ہے کہ امت کو شیعہ سنی میں، بریلوی دیوبندی میں، مقلد اور غیر مقلد میں تقسیم کرکے فرقہ وارانہ رنگ دے کر مسلمانوں کے اجتماعات کا استعمال کریں۔ آج بھی ان کی یہ کوشش جاری ہے، اس لیے جب کبھی ظلم کے خلاف آواز اٹھتی ہے تو امریکا اور اس کے اتحادی فوراً یہ آواز لگاتے ہیں کہ یہ پراکسی وار ہے۔ میں کہتا ہوں نہیں، یہ پراکسی وار نہیں ہے، یہ ظلم کے خلاف قرآنی نظریہ ہے، یہ ظلم کے خلاف اسلام کا پیغام ہے، یہ ظلم کے خلاف نبی کریم ؐ کی آخری حجت ہے۔ اس پیغام کو قبول کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے، اس لیے آج کے اس اجتماع میں شیعہ بھی ہیں، سنی بھی اور آج کا یہ اجتماع کسی فرقے یا فرقہ وارانہ سوچ کے تحت نہیں ہے بلکہ ظالم کے مقابلے میں پاکستان کی 22 کروڑ عوام کی ترجمانی کے لیے منعقد کیا گیا ہے، اس لیے اس اجتماع کے منعقد کرنے والوں نے اس اجتماع کا نام اتحاد امت رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امت کے اتحاد کا مظہر خوش آئند بھی ہے، لائق مبارکباد بھی ہے اور قابل تحسین بھی، اسی فکر کو ہم آگے لیکر چلیں، ہم اپنے حکمرانوں کے دشمن نہیں ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حکمران دنیا میں عزت سے رہیں، ذلت کے ساتھ نہ رہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کا کوئی بھی مقتدر فرد اور طاقت ہو، اس کو دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے، ذلت اور پستی کی نگاہ سے نہیں۔ آج ملائیشیاء کا وزیراعظم مہاتیر محمد دنیا کی نگاہ میں عزیز ہے اور ہمارے حکمران ذلیل ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ اپنے موقف کی کمزوری ہے۔ ہمارے حکمران سمجھتے ہیں کہ چند ڈالروں کے عوض بائیس کروڑ عوام کو بیچا جا سکتا ہے، نہیں یہ غلط فہمی ہے، اگر ہم آج اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں تو اس کی اصل ذمہ داری امریکیوں پر عائد ہوتی ہے، اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے مظلوم اقوام کے استحصال کرنے کے لیے معیشت کا ایک ایسا نظام بنایا ہے، جس کے تحت جب تک قومیں غلامی نہ کریں، اس وقت تک ان قوموں کو آگے بڑھنے سے روکا جائے، لیکن ان شاء اللہ وہ دن آئے گا کہ پاکستان ایک آزاد ملک بن کر اقوام عالم کے درمیان اٹھے گا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں عمران خان سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی ماضی کی تقاریر سنیں اور میں عمران خان سے سوال کرتا ہوں کہ ماضی میں جو تم امریکا کے بارے میں، یو این کے بارے میں، خطے کے بعض غلام ممالک کے بارے میں، جس طرح کی رائے رکھتے تھے، آج اقتدار کی مسند پر پہنچنے کے بعد آپ کی رائے کیوں تبدیل ہوگئی؟ آپ کا موقف بدل کیسے گیا؟ اور 180 ڈگری کا یوٹرن آپ نے کیوں لیا ہے؟ یہ یاد رکھیں قومیں کسی فرد کے لیے نہیں اٹھتیں، بلکہ قومیں اپنے اقدار، اپنی حمیت، اپنی غیرت کو بچانے کے لیے نکلتیں ہیں۔ ہم پاکستانی قوم ہیں، ہم کشمیر کو نہیں بھلا سکتے، ہم فلسطین کو نہیں بھلا سکتے اور ہم دیگر مظلوم اقوام کی مظلومیت کو نہیں بھلا سکتے۔
سنو اے پاکستان کے بے ضمیر حکمرانوں کشمیر کے مسئلے پر تمہارے آقاوں نے ایک لفظ بولنا گوارا نہیں کیا، بلکہ جن کے جوتوں پر تم بیٹھ گئے، انہوں نے تمہیں کہا کہ کشمیر تمہارا لوکل مسئلہ ہے، اِسے امت کا مسئلہ نہ بناوں، ہمارا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ان حکمرانوں کی آواز ہے، جو امریکیوں کے تلوے چاٹتے ہیں، لیکن دوسری طرف اگر ہم کشمیر سے متعلق مسلم عوام کی بات کریں، چاہے وہ حجازی عوام ہوں، چاہے وہ ایرانی عوام ہوں، چاہے وہ دمشق اور بغداد کی عوام ہو، کہتے ہیں کہ کشمیر مسلمانوں کا مسئلہ ہے، اُسی طرح سے جس طرح سے بیت مقدس مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور ان ممالک کے عوام یہ کہتے ہیں کہ جس طرح کی جدوجہد ہم بیت مقدس کے لیے کر رہے ہیں، ایسی ہی جدوجہد کشمیر کے لیے کریں گے۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ ہمارے آج کے اس اجتماع کا بنیادی مقصد دنیا اور پاکستان کو یہ باور کروانا ہے کہ پاکستان اُس مقاومتی محاذ کا حصہ ہے، جو ظالم امریکیوں اور اس کے اتحاد کے خلاف لڑ رہا ہے۔ دنیا اور پاکستان کے حکمران چاہیں یا نہ چاہیں، پاکستان اُس مقاومتی بلاک کا حصہ ہے اور رہے گا اور میں پاکستان اور دنیا کی مقتدر قوتوں سے کہتا ہوں دیکھ لو، آج اس اجتماع میں یہ پاکستان کے عوام اُس مقاومتی بلاک سے ہمدردی کے لیے سٹرکوں پر نکلے ہیں اور اُس مقاومتی بلاک کے لیے پاکستانی عوام کے دلوں میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ساتھ میں یہ بھی یاد رکھیں، یہ مقاومتی بلاک کسی ایک فرقے کی ترجمانی نہیں کرتا اور نہ ہی پاکستانی عوام اس مقاومتی بلاک کو کسی ایک فرقے کا حصہ سمجھتی ہے۔
یہ مقاومتی بلاک فرقے کی بنیاد پر نہیں نظریئے کی بنیاد پر قائم ہے، اس لیے جب تک ظلم سرنگوں نہیں ہوتا، اُس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، جب تک ظلم کا خاتمہ نہ ہو، بیداری کی یہ تحریک جاری رہے گی۔ جب تک امریکا اور ظالم قوتوں کے نجس پنجے اس ملک سے نہیں نکلتے، تب تک پاکستان کا دیوبندی ، اہل حدیث، شیعہ اور سنی چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس لیے کہ یہ سب اس بات کا ادراک کرچکے ہیں کہ پاکستان کی بربادی اور ذلت کا باعث امریکا ہے اور امریکیوں کو اس خطے سمیت تمام اسلامی ممالک سے جلد سے جلد نکلنا چاہیئے۔