مضامین

ایم ڈبلیو ایم کی سیاست اور خط شہید حسینی

مجلس وحدت مسلمین، پاکستان میں اہل تشیع کی نمائندہ سیاسی و مذہبی جماعت کے طور پر سرگرم ہے، اس جماعت کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری مذہبی و اخلاقی اقدار کے تحت عوامی و سیاسی انداز میں اپنی ملت سمیت پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق کے حصول کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت کے طور پر ملکی سیاست میں اپنا رول ادا کر رہی ہے اور رجیم چینج آپریشن کے بعد سے پی ڈی ایم حکومت، امریکی مداخلت اور عمران خان کی حکومت کو گرانے میں ملوث کرداروں کیخلاف واضح موقف اپنانے ہوئے ہے۔ پی ٹی آئی سربراہ کی جانب سے جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد ایم ڈبلیو ایم کی قیادت نے اتحادی جماعت ہونے کا واضح ثبوت دیتے ہوئے اس تحریک کی نہ صرف حمایت کی بلکہ میدان عمل میں کودتے ہوئے خود چئیرمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے ساتھیوں سمیت رضاکارانہ طور پر گرفتاری پیش کی، تاہم علامہ صاحب کو پولیس نے گرفتار کرنے کے بعد ایک ویرانے میں جاکر چھوڑ دیا۔

کسی اہم شیعہ رہنماء کی جانب سے ملکی سیاست میں کردار ادا کرتے ہوئے ازخود گرفتاری دینے کا یہ منفرد اقدام تھا، تاہم ایم ڈبلیو ایم کے چئیرمین کے اس اقدام کو جہاں بھرپور پزیرائی ملی اور وہیں بعض طبقات کی جانب سے تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ واضح رہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور ان کی جماعت خود کو شہید قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی کے مشن کی امین اور ان کے طرز سیاست کی پیرو سمجھتی ہے، ناقدین کی جانب سے ایم ڈبلیو ایم قیادت کے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی جیل بھرو تحریک کی عملی حمایت کو خط شہید حسینی اور ان کے طرز سیاست سے متصادم قرار دیا گیا۔ تاہم دیکھا جائے تو علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور ان کی جماعت نے ہمیشہ سے امریکہ سمیت ہر قسمی بیرونی مداخلت کو ملکی استحکام کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے، کرپشن اور بدعوانی سے پاک سیاست کی حمایت کی ہے، قانون کی بالادستی ہے اور آئین کی حکمرانی کی بات کی ہے، ملک سے دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے آواز اٹھائی ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی منتخب حکومت کو بیرونی مداخلت کے تحت ختم کرنے، عدالتوں سے بدعنوان قرار دیئے جانے والے سیاستدانوں کو ملک کی باگ دوڑ حوالے کئے جانے، اداروں کے اپنی حدود سے تجاوز کرنے اور ملک میں ایک مرتبہ پھر آئین و قانون کیخلاف اقدامات اٹھائے جانے پر ایم ڈبلیو ایم نے وہی موقف اپنا جس کی بنیاد پر اس نے آج سے تیرہ سال قبل پاکستان کے سیاسی میدان میں قدم رکھا تھا۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’جس طرح عمران خان کی حکومت ختم کی گئی، اگر اس طرح ہمارے دشمن کی حکومت بھی ختم کی جاتی تو ہمارا موقف یہی ہوتا جو آج ہے‘‘۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی اگر آج زندہ ہوتے تو کیا وہ امریکہ مداخلت پر خاموش رہتے۔؟ کیا ملکی باگ دوڑ کرپٹ سیاستدانوں کے حوالے کرنے پر خوش ہوتے۔؟ کیا آئین و قانون کی دھجیاں اڑائے جانے کی حمایت کرتے۔؟ کیا ملکی اداروں کی اپنی اپنی حدود سے تجاوز کو درست قرار دیتے۔؟

شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے طرز سیاست اور عوامی جدوجہد کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے والے یقینی طور پر جانتے ہوں گے کہ اگر شہید حسینی زندہ ہوتے یقینی طور پر وہ امریکی مداخلت کیخلاف صف اول میں کھڑے ہوتے، پاکستان کو قائداعظم اور اقبال کا پاکستان بنانا شہید علامہ عارف حسین الحسینی کا خواب تھا نہ کہ وہ پاکستان، جہاں حکمران کرپشن اور لوٹ مار کے چیمپئین ہوں، شہید نے ہمیشہ ملکی میں آئین و قانون کی نہ صرف بالادستی کی بات کی بلکہ عملی طور پر اس کا نمونہ بھی پیش کیا، اداروں کا اپنی اپنی متعین حدود میں رہ کر کام کرنا ہی شہید حسینی کے سیاسی منشور کر حصہ تھا۔ آج مجلس وحدت مسلمین نے تحریک انصاف کا موقف نہیں اپنایا بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت اس راستے پر آنے پر مجبور ہوئی ہے جو شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے دیکھایا تھا۔ لہذا ایم ڈبلیو ایم کا وہی موقف نظر آرہا ہے، جو اصولوں پر مبنی اور ملکی استحکام کیلئے ضروری ہے۔
رپورٹ: سید عدیل زیدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button