
بے نظیربھٹو قتل پر پورا ملک جام کرکے نظر آتش کرنے والی پیپلز پارٹی کو کراچی میں پاراچنار کی حمایت میں دھرنوں سے تکلیف
سنہ 1996 پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے بنائے ہوئے طالبان نے افغانستان میں حکومت قائم کرنے کی خاطر ضلع کرم و پاراچنار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی
شیعہ نیوز: پاکستان میں جمہوریت کے قیام اور آئین بنانے کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی کو مظلومین پاراچنار کی حمایت میں روح آئین پاکستان کے عین مطابق دیے جانے والے پر امن دھرنوں سے تکلیف ہونے لگی، گزشتہ روز پاکستان پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک متنازعہ بیان میں کہا تھا کہ "پاراچنار کا مسئلہ پاراچنار میں ہی حل ہوگا کراچی یا سکھر میں نہیں”، جس پر بزرگ عالم دین علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کا کہنا تھا کہ ” شاہ صاحب ہمیں آپ سے یہ امید نہ تھی، آپ آج گڑھی خدا بخش میں جس بی بی کی برسی منا رہے ہیں انکے قتل پر آپ لوگوں نے پورے ملک میں خصوصا کراچی میں آگ لگا کر افراتفری پیدا کی، شہر کراچی کو مکمل جام کر کے بسوں کو آگ لگائی، ٹرین کی پٹھڑیاں تک اکھاڑ دی گئیں تھیں، اس وقت آپ نے یہ کیوں نہ کہا کہ بی بی کا قتل تو راولپنڈی میں ہوا تو اسکا رد عمل کراچی میں کیوں دیا جا رہا ہے؟”۔
وزیر اعلی سندھ مراد علی شاھ کے اس بیان کو عوامی حلقوں میں بھی بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کے بعد آج پیپلزپارٹی کے مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب میدان میں آئے اور بیان داغ دیا کہ "پارچنار کے مسئلے پر احتجاجا کراچی کی سڑکیں بند کر کےشہریوں کو تکلیف نہ دی جائے”۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں دھرنا جاری ہے، کسی افواہ پر کان نہ دھریں، علامہ احمد اقبال رضوی
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس ہی شہر کراچی میں دہشتگردی اور بد امنی پھیلانے والوں کی سرپرستی خود شریک چئیرمین آصف علی زردار کرتے رہے ہیں، لیاری گینگ وار، امن کمیٹی کے بدنام زمانہ دہشتگرد عزیر بلوچ کو اپنا بچہ کہتے رہے ہیں جس نے کراچی میں بھتہ خوری، قتل و غارت گری اور لسانی فسادات کا بازار گرم کر رکھا تھا۔،
اسکے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخ پارچنار مسئلے کے حوالے سے بھی بہت تایک رہی ہے، سنہ 1996 پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے بنائے ہوئے طالبان نے افغانستان میں حکومت قائم کرنے کی خاطر ضلع کرم و پاراچنار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ جس کے تحت وہاں کے اسکول کے بچے اور اساتذہ بھی لقمہ اجل بنے تھے۔ جس میں سکول ھذا کے پرنسپل اسرار حسین بھی شہید ہوئے۔ جن کے نام سے آج سکول منسوب ہے ۔ بدنام زمانہ دہشتگردوں نے سکول کے اندر شیعوں کے خلاف غلیظ چاکنگ کی تھی جبکہ بڑی تعداد میں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاراچنار جل رہا ہے
پاراچنار کے موجودہ مسئلے میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماء و سابق ممبر قمی اسمبلی ساجد طوری کا کردار بھی انتہائی متنازعہ رہا ہے, پاراچنار کے زمینی تنازعات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں اور مسائل کو پیچیدہ کرنے میں ساجد طوری کا اہم کردار رہا ہے، ساجد طوری اور پیپلزپارٹی کا پاراچنار میں یہ منفی کردار وہاں کی عوام سے بدلہ لینے کے مترادف ہے کیونکہ پچھلے قومی انتخابات میں پاراچنار سمیت ضلع کرم کی شیعہ سنی عوام نے وحدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ساجد طوری کو رد کر تے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے انجینئیر حمید حسین کو اپنا ممبر قومی اسمبلی چنا تھا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین اور موجودہ صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کو بھی اپنی آئینی زمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے چائیے کو وہ مظلومین پاراچنار کے حق میں دیے جانے والے پر امن دھرنوں کے نتیجے میں فی الفور پاراچنار کے مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل نکالنے کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کریں، اور اپنی سیاسی جماعت کے سرکردہ افراد کو بھی پابند کریں کہ وہ اس طرح کے متانازعہ بیانات کو دے کر پارچنار اور ان سے اظہار یکجہتی کرنے والے عوام کے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں۔