پاکستانی شیعہ خبریں

پارہ چنار میں شہید قاسم سلیمانی کی برسی کی تیاریاں

شیعہ نیوز:3 جنوری 2021ء کو شہید قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور انکے باوفا اور جانثار ساتھیوں کی پہلی برسی ہے۔ 2020ء کا پہلا ہفتہ انہی کے خون ناحق سے سرخ اور سوگوار ہوا،جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مستضعفین، خصوصاً مسلمانوں اور پھر بالاخص آزادئ قدس کے خواہشمند انقلابیوں کے دلوں میں امریکہ کے لئے نفرت کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کی شخصیت، انکے ان گنت اور اعلیٰ کارنامے ہمارا اصل موضوع بحث نہیں، بلکہ دنیا بھر میں ان کی یاد منانے کے حوالے سے ہونے والے پروگرامات ہمارا اصل موضوع ہے۔ امریکہ اور اس کے مسلمان دوست خصوصاً عرب حواریوں کا یہ خیال تھا کہ شہادت سے سلیمانی اور ابو مہدی ہمیشہ کے لئے فنا ہو جائیں گے۔ ان کی شخصیت کے ساتھ ان کا مشن ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے گا، مگر یہ ان کی بھول تھی۔

آج جبکہ 3 جنوری یعنی ان کی برسی کو ابھی وقت باقی ہے کہ دنیا بھر میں ان کی یاد کے حوالے سے پروقار پروگرامات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ پاکستان میں جگہ جگہ ان کی یاد میں محافل اور مجالس کا اہتمام ہو رہا ہے۔ ان کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتے، بلکہ میں یہاں اپنے کچھ چشم دید مشاہدات اور اس کے پس منظر میں اپنے احساسات کا تذکرہ کر رہا ہوں۔ آج ایک جنازے میں شرکت کے علاوہ دیگر چند مرحومین کی دعا کے لئے کرم کے چند علاقوں کا دورہ کرنا پڑا، تو اس دوران سڑک کے کنارے واقع دکانوں، مساجد، چوکوں، دیہات کے میں دروازوں کے علاوہ ہر در و دیوار کو قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کی بڑی بڑی تصاویر اور پوسٹرز سے مزین پایا۔ جگہ جگہ، گاؤں گاؤں اور گلی گلی میں ان کی تصاویر اور پوسٹرز نصب تھے۔ راستے میں گزرنے والی تقریباً ہر گاڑی پر شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کی تصویر چسپاں تھی۔

علاقہ کچھ عجیب منظر پیش کر رہا تھا۔ کُرم کُرم نہیں لگ رہا تھا، بلکہ سلیمانی کا شہر کرمان اور ابو مہدی کا ملک عراق لگ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر میرے ذہن میں فوراً ایک خیال گردش کرنے لگا کہ شہادت ہی وہ مقدس ترین سرمایہ ہے، جس کے سامنے ملکی اور بین الاقوامی سرحدوں کی کوئی قید نہیں ہوا کرتی۔ اُدھر شہادت کے بھی اپنے اپنے مراتب اور درجات ہیں۔ شہادت بعض اوقات ایک محدود مشن اور ہدف کیلئے ہو جاتی ہے، بعض اوقات ملکی سرحدوں، جبکہ بعض اوقات دین اسلام اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے لئے ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ جتنا مشن اعلیٰ و ارفع ہو، اس پر دی جانے والی قربانی کا بھی اتنا ہی مقام ہوا کرتا ہے۔

یہ تو آپ کے علم میں ہے کہ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی فوجی سروس کے ابتدائی ایام ہی سے اپنا مشن ایران کے بجائے فلسطین اور بیت المقدس کو رکھا۔ اس اعلیٰ مقصد کے لئے قدس بریگیڈ کے نام سے ایک خصوصی بریگیڈ تشکیل دیا گیا۔ جس کا واحد مقصد آزادی قدس و فلسطین تھا۔ جس کے سربراہ سردار قاسم سلیمانی تھے۔ دنیا ابھی قاسم سلیمانی کو نہیں جانتی تھی، نہ اس کی اہمیت سے کوئی واقف تھا، مغربی طاقتیں خصوصاً اسرائیل اور امریکہ وغیرہ اس شیر ببر کے نام سے خائف تھے اور ان کے قتل کے درپے تھے۔ جس میں بالآخر وہ کامیاب ہوگئے۔ مگر قتل تو بہت سے رہنما ہوچکے ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر قتل ہوچکے ہیں۔ ملکوں کے سربراہ قتل ہوچکے ہیں۔ خود ایران اور عراق میں ملک کے صدر اور وزیراعظم قتل ہوچکے ہیں۔ مگر سلیمانی اور ابو مہدی کے قتل پر دنیا میں اتنا کہرام کیوں مچا۔؟

میرے ذہن میں پھر وہی خیال آگیا، شہادت کے بھی اپنے مراتب ہوتے ہیں، ان کی شہادت چونکہ اپنی ذات کے لئے نہیں تھی، اپنے ملک اور اپنے علاقے کے لئے بھی نہیں تھی، بلکہ پورے عالم اسلام اور مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے تھی۔ اسی لئے تو دنیا بھر کے مظلومین و مستضعفین خصوصاً آزادی پسند مسلمانوں نے انہیں اپنی آئیڈیل شخصیت قرار دیتے ہوئے اپنا شہید قرار دیا۔ یہی تو وجہ ہے کہ پورے کرم اور پاراچنار کے در و دیوار شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کی تصاویر سے سج گئے ہیں۔ سلیمانی زندہ باد، مہندس زندہ باد۔ اسلام اور پاکستان پائندہ و تابندہ باد۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button