مضامین

یمن جنگ بندی میں توسیع نہ ہونے کی وجوہات

تحریر: محمد علی تخت روندہ

2 اپریل 2022ء کے دن سے یمن میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا آغاز ہوا تھا۔ یہ جنگ بندی اقوام متحدہ کی ثالثی کے نتیجے میں انجام پائی تھی۔ جنگ بندی کے آغاز سے اب تک یمن کے امور کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہینس گرنڈبرگ کئی بار صنعاء اور مسقط کا دورہ کر چکے ہیں جہاں وہ فریقین کے سیاسی سربراہان سے ملاقاتیں انجام دے چکے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے سیاسی رہنماوں کو جنگ بندی میں توسیع پر راضی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی یہ کوششیں ثمربخش ثابت ہوئیں اور دو ماہ کیلئے انجام پانے والی اس جنگ بندی میں دو بار مزید توسیع کی گئی اور یوں چھ ماہ تک جاری رہی۔ یہ جنگ بندی 2 اکتوبر 2022ء کے دن ختم ہو رہی تھی۔

مذاکرات کے آخری مرحلے میں 2 اکتوبر 2022ء کے دن ختم ہونے والی اس جنگ بندی میں مزید توسیع کی کوشش کی گئی لیکن فریقین کے درمیان معاہدہ طے نہ پانے کے نتیجے میں ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے بعد ہینس گرنڈبرگ نے اعلان کیا کہ وہ بدستور اپنی کوششیں جاری رکھیں گے کیونکہ جنگ بندی کے باعث جنگ کی شدت میں بہت کمی واقع ہوئی تھی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالیہ مذاکرات میں جنگ بندی میں توسیع کیوں ممکن نہیں ہو سکی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے ہمیں اس بات کا جائزہ لینا پڑے گا کہ پہلی بار جنگ بندی کیسے انجام پائی، اس میں کون کون سی شرائط پیش کی گئی تھیں اور فریقین نے کس حد تک ان شرائط کی پابندی کی تھی۔ جنگ بندی میں سب سے اہم شرط انصاراللہ یمن کی جانب سے پیش کی گئی تھی جو یمن محاصرے کے خاتمے پر مشتمل تھی۔

1)۔ یمن کے خلاف پابندیوں اور محاصرے کا ختم نہ ہونا
گذشتہ چند ماہ کے دوران انصاراللہ یمن کا اہم ترین مطالبہ یمن کے خلاف جاری پابندیاں اور محاصرے کا خاتمہ تھا۔ جنگ بندی کے معاہدے میں بھی یہ شرط شامل کی گئی تھی لیکن عالمی اداروں اور سعودی عرب کی سربراہی میں جارح فوجی اتحاد نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ یمن گذشتہ سات برس سے زمین، سمندر اور فضا سے شدید محاصرے کا شکار ہے جس کے نتیجے میں 3 کروڑ یمنی شہری انتہائی سنجیدہ مشکلات سے روبرو ہو چکے ہیں۔ یمن حکام نے جنگ بندی کی ابتدا سے ہی اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ ایسا کوئی معاہدہ قبول نہیں کریں گے جس کا نتیجہ یمن کے خلاف ظالمانہ پابندیوں اور محاصرے کا خاتمہ نہ ہو۔ وہ خبردار کر چکے تھے کہ محاصرہ ختم نہ ہونے کی صورت میں جنگ بندی میں توسیع نہیں کریں گے۔

2)۔ جارح سعودی اتحاد کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں
2 اپریل 2022ء کے دن جنگ معاہدے کے آغاز سے ہی سعودی عرب کی سربراہی میں جارح فوجی اتحاد نے اس کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں۔ اس جنگ بندی کی چند اہم شرائط سرکاری اہلکاروں کی تنخواہ کی ادائیگی، صنعاء ایئرپورٹ پر تجارتی پروازوں میں اضافہ اور الحدیدہ بندرگاہ پر کشتیوں کی آمدورفت کی اجازت دینے پر مشتمل تھیں۔ لیکن گذشتہ چھ ماہ کے دوران سعودی اتحاد نے ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران یمن متعدد بحرانوں کا شکار رہا ہے جن میں غذائی مواد کی قلت، انرجی کا بحران اور ادویہ جات کی قلت شامل ہے۔ صنعاء حکومت کا اہم ترین مطالبہ بنیادی ضرورت کی اشیاء برآمد کرنے کی اجازت پر مبنی تھا لیکن انہیں اس بات کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

3)۔ جنگ بندی معاہدے میں نئی شرائط کا اضافہ
یمن اور جارح سعودی اتحاد میں جاری جنگ بندی مذاکرات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہینس گرنڈبرگ نے یمن حکام سے جنگ بندی معاہدے میں بعض نئی شرائط کا اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف یمن حکام نے انہیں اس بات کی یاددہانی کروائی ہے کہ جارح سعودی اتحاد نے اب تک گذشتہ شرائط پر عملدرآمد نہیں کیا جبکہ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں نے بھی اس پر جنگ بندی معاہدے کی پابندی کیلئے کوئی دباو نہیں ڈالا۔ لہذا انہوں نے کسی قسم کی نئی شرائط ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران یمن حکام نے بارہا سعودی اتحاد کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر خبردار کیا تھا اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ریاض پر معاہدے کی پابندی کیلئے دباو ڈالے لیکن ان کے مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

نتیجہ
یمن میں جنگ بندی برقرار ہونے سے پہلے کی تبدیلیوں سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ انصاراللہ یمن فوجی میدان میں واضح برتری کی حامل تھی۔ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر متعدد میزائل اور ڈرون حملے انجام پائے تھے جنہوں نے ریاض کو جنگ بندی کی طرف آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ سعودی حکمرانوں نے جب دیکھا کہ فوجی میدان میں یمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو جنگ بندی کیلئے مذاکرات کیلئے تیار ہو گئے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ سعودی حکمران یمن کی جانب سے دوبارہ حملے شروع ہونے کے امکان سے شدید خوفزدہ ہیں لہذا وہ آخرکار جنگ بندی میں توسیع کیلئے یمن کی شرائط مان جائیں گے۔ انصاراللہ یمن نئے معاہدے میں یہ شرط بھی رکھے گی کہ گذشتہ معاہدے کی ان شقوں پر بھی عملدرآمد کیا جن پر اب تک عمل نہیں کیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button